• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں 13 روز کی توسیع

شائع October 1, 2019
عدالت کی جانب سے وکلا کے دلائل کے بعد خورشید شاہ کا 13 روز کا ریمانڈ دیتے ہوئے ان کو نیب کے حوالے کردیا گیا — فائل فوٹو/ڈان نیوز
عدالت کی جانب سے وکلا کے دلائل کے بعد خورشید شاہ کا 13 روز کا ریمانڈ دیتے ہوئے ان کو نیب کے حوالے کردیا گیا — فائل فوٹو/ڈان نیوز

سکھر کی احتساب عدالت نے قومی احتساب ادارے (نیب) کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینئر رہنما خورشید شاہ کے ریمانڈ میں توسیع کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے ان کو مزید 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

نیب نے پی پی پی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کا ریمانڈ مکمل ہونے پر انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا تھا۔

اس سے قبل احتساب عدالت کی جانب سے آمدن سے زائد اثاثہ جات بنانے کے الزام میں گرفتار خورشید احمد شاہ کا 9 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا گیا تھا۔

سماعت کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ، سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی، چودھری منظور، فیصل کریم کنڈی، امتیاز شیخ، زمرد خان، صوبائی وزیر اور خورشید شاہ کے بھتیجے سید اویس قادر شاہ، خورشید شاہ کے صاحبزادے ایم پی اے سید فرخ شاہ ودیگر پارٹی رہنما بھی عدالت میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی حراست میں خورشید شاہ کی طبیعت ناساز، ہسپتال منتقل

سماعت کے آغاز پر پی پی پی کے مرکزی رہنما اور سینئر وکیل رضا ربانی نے خورشید شاہ کے وکیل ہونے کی حیثیت سے اپنا وکالت نامہ جمع کرایا جبکہ خورشید شاہ کے وکلا پینل کے رکن ایڈووکیٹ مکیش کمار چاولہ نے عدالت سے نیب حکام کے رویے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ خورشید شاہ کو الزامات سے بری کرچکی ہے عدالت کے حکم کے باوجود اکیلے ملنے نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے کہا کہ 'نیب سکھر کے انکوائری افسر کہتے ہیں کہ میرے سامنے خورشید شاہ سے بات کریں اور سندھی کے بجائے اردو میں بات کریں جب ایسی صورت حال ہوگی تو میں اپنے موکل سے کیا بات کرسکوں گا'۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 'خورشید شاہ کا گھر کسی سرکاری پلاٹ پر نہیں بلکہ ایک نجی سوسائٹی میں ہے اور سوسائٹی اپنی مرضی سے پلاٹس کے ترتیب میں ردو بدل کرسکتی ہے'۔

خورشید شاہ کے وکیل کے دلائل کے دوران جج نے ان سے استفسار کیا کہ 'آپ یہ کاغذات نیب کے حوالے کیوں نہیں کرتے'۔

اس موقع پر نیب کے استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کا گھر 6 کروڑ روپے کی لاگت سے بنا ہے، گھر کی تعمیر آمدن سے زائد اثاثہ جات کی مد میں آتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ 'اس کے علاوہ بھی خورشید شاہ کی بہت سی بے نامی جائیدادیں ہیں، ان کے خاندان کے 10 بینک اکاؤنٹس ہیں جن سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی رہی ہے اس لیے مزید تفتیش کے لیے 15 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔

اس کی مخالفت میں رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 'خورشید شاہ کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے نیب کے قانون کو مذاق بنادیا گیا ہے وہ اسمبلی کے معزز رکن ہیں انہوں نے خط لکھ کر کسی اور پیشی پر پیش ہونے کی درخواست کی تھی لیکن ان کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے'۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: خورشید شاہ 9 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب خورشید شاہ کا ریمانڈ کس کام کے لیے مانگ رہی ہے، پہلے 500 ارب، پھر 50 ارب اور اب صرف ان کا گھر غیر قانونی قرار دیا جارہا ہے'۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ خورشید شاہ کو رہا کرکے نیب کو ان کے خلاف ٹھوس ثبوت جمع کرانے کی ہدایت کی جائے یا پھر انہیں جوڈیشل ریمانڈ جیل بھیج دیا جائے۔

نیب عدالت سے مزید ریمانڈ دینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 'ریمانڈ دیا جائے تاکہ مزید ریکوری کی جائے اور جو ریکوری ہوگی وہ بھی خورشید شاہ کے بتانے سے ہوگی اس لیے ان کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے'۔

خورشید شاہ کے وکیل رضا ربانی نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب استغاثہ نے عدالت کے سامنے دھمکی دی ہے کہ وہ خورشید شاہ سے زبردستی ریکوری کریں گے اور جو لوگ عدالت میں یہ دھمکیاں دے رہے ہیں ان کا رویہ میرے موکل کے ساتھ کیسا ہوگا'۔

انہوں نے نیب استغاثہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے خلاف کل ہائی کورٹ میں جائیں گے جس پر نیب استغاثہ نے کہا کہ اگر آپ کو میرے الفاظ دھکمی لگ رہے ہیں تو میں ان پر معافی مانگتا ہوں'۔

خورشید شاہ کے خلاف انکوائری

خیال رہے کہ 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔

نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (اے) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔

نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔

اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔

مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔

نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کی رہائشی اسکیموں، پیٹرول پمپز، زمینوں اور دکانوں سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کرلیں ہیں۔

یاد رہے کہ خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگئے، جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024