خان صاحب، قوم آپ کو مدتوں یاد رکھے گی!
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لگی بندھی تقاریر کا سلسلہ چلا، وہی روایتی پارلیمانی حدود میں رہتے ہوئے مہذبانہ تقاریر و خطابات کے ساتھ اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔
پھر باری آئی عمران خان کی جنہوں نے اپنی مدلل انداز، پُرجوش لہجے اور دل سے کی گئی تقریر سے سکوت توڑ ڈالا۔
ان کی آمد سے پہلے نہ تو کسی نے تالی بجائی، نہ چوکنا ہوکر تقریر سماعت کی۔ وجہ خان کا پُراعتماد لہجہ تھا۔ جس سے لگ رہا تھا کہ وہ آج کشمیر سمیت، ‘تیسری دنیا‘ اور دنیائے اسلام کو لاحق اہم مسائل کا مقدمہ لڑنے اور ان مسائل پر بے حسی کا شکار عالمی برادری کو جگانے اور جھنجھوڑنے آئے ہیں۔
جس وقت وزیرِاعظم پاکستان کی تقریر جاری تھی اس وقت ہمارے نیوز روم سے وقتاً فوقتاً تحسین بھری آوازیں بُلند ہورہی تھیں۔ آج وہ دوست بھی خان کو شاباش دے رہے تھے جو ہمیشہ سیاسی و ذاتی اختلافات کے باعث انہیں کسی قسم کی چھوٹ نہیں دیتے تھے۔
عمران خان نے بنیادی طور پر 4 معاملات پر بات کی۔
- سب سے پہلے ماحولیاتی تبدیلی،
- اس کے بعد منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کا گورکھ دھندہ،
- پھراسلاموفوبیا اور
- سب سے آخر میں مسئلہ کشمیر پر گفتگو کی۔
یقیناً وہ بے لاگ اور بے باک ہوکر بولے اور ان کی تقریر اقوامِ متحدہ کی طویل ترین تقریروں میں سے ایک ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی
ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ اس وقت پوری دنیا میں خاصی اہمیت اختیار کرچکا ہے پاکستان اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔ لہٰذا پاکستان کا اس موضوع پر بولنا بنتا تھا کیونکہ ماحولیاتی بگاڑ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس کے اثرات ہمیں تباہی کی طرف لے جارہے ہیں۔
وزیرِاعظم نے درست کہا کہ دنیا میں ایک اندازے کے مطابق 5 ہزار گلیشیرز پگھل چکے ہیں اور اگر ہم نے اس مسئلے کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ نہ دی تو دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوجائے گی۔
انہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کا بھی تذکرہ کیا، جس سے دنیا بھر کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان دنیا کو درپیش مسائل کا شعور رکھنے والا ملک ہے جہاں اس حوالے سے کام بھی ہورہا ہے۔
کرپشن اور منی لانڈرنگ
خطاب میں اگلا موضوع کرپشن اور منی لانڈرنگ تھا۔ اس پر عمران خان خوب بولے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ اپوزیشن میں تھے تب بھی اور انتخابی مہم میں بھی انہوں نے سابق حکمرانوں کو اس حوالے سے کس قدر تنقید کا نشانہ بنایا۔
یہاں انہوں نے عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کا ذکر کیا جن کا قیام یورپ کے نام نہاد ترقی یافتہ اور امیر ممالک کے تعاون کے بغیر ناممکن تھا۔ چونکہ منی لانڈرنگ سے یورپی ممالک میں پیسہ آتا ہے اس لیے اس عمل کو خوشی خوشی قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح آف شور کمپنیوں کی صورتحال ہے، غریب ممالک کے پیسوں کے بل پر یورپ، امریکا اور دیگر ممالک کے بینکوں نے اپنی معیشت کو زبردست انداز میں سہارا دے رکھا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ واپس مانگنے پرغریب ممالک کو ان کا پیسہ بھی واپس نہیں کیا جاتا۔
عمران خان نے کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ غریب ملکوں سے اربوں ڈالر نکل کر امیر ملکوں کے بینکوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک تباہ ہو رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ان کی حکومت آنے سے قبل ملک کا قرضہ 10 برسوں کے دوران 4 گنا بڑھ گیا تھا، ہمارے ملک میں چند خاندان حکمران تھے جو کرپشن کرکے اپنے پیسے باہر بھیج دیتے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے امید ظاہر کی کہ اقوامِ متحدہ اس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کرے گی۔
اسلاموفوبیا
اقوام متحدہ جیسے عالمی پلیٹ فارم پر پہلی بار اسلاموفوبیا، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم اور سلوک پر کُھل کر گفتگو کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کسی مسلمان حکمران نے یوں دنیائے اسلام کا مقدمہ نہیں لڑا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ میانمار سے تقریباً 10 لاکھ روہنگیا مسلمان باہر ہیں اور وہ شدت پسندی کا شکار ہیں، اس پر عالمی برادری کا کیا جواب تھا، آپ کیا سجھتے ہیں کہ ایک ارب 30 کروڑ مسلمان کیا سوچتے ہوں گے'۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اسلاموفوبیا متعدد رہنماؤں کی وجہ سے پھیل رہا ہے اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی ہے۔
مسئلہ کشمیر
آخر میں عمران خان نے کشمیر پر بات کی اور ایسے کی کہ اگلی پچھلی ساری کسر نکال دی۔ عمران خان فی البدیہہ بولے اور بلاجھجھک بولے۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں نہ کہیں ایسی بات کرجائیں گے جس سے مذاق بنے گا۔ عام طور پر تاریخ اور جغرافیے کے ریفرنس دینے میں خان صاحب خاصے لاپرواہ ثابت ہوئے ہیں لیکن اچھی بات یہ رہی کہ سب ٹھیک رہا، انہوں نے دلیل، عقل اور تدبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
کشمیر پر بولتے وقت انہوں نے بھارت کی آر ایس ایس کا پردہ چاک کیا تو ہندوتوا دہشتگردی کا بھی بھانڈا پھوڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس کی حکمرانی ہے جو ہٹلر کے نظریے کی حامی ہے اور جب مودی گجرات کے وزیرِ اعلیٰ تھے تو اس دور میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔
وزیراعظم نے کہا، ’میں خود کو مثال بناتا ہوں، میں کشمیر میں ہوں اور مجھے 55 روز سے محصور کیا گیا ہے۔ میں ریپ کے واقعات کے بارے میں سنتا ہوں، بھارتی فوج گھروں میں گھس رہی ہے تو کیا میں اس ذلت میں رہنا چاہوں گا؟ کیا میں اس طرح زندگی گزارنا چاہوں گا؟ لہٰذا میں ہتھیار اٹھاؤں گا۔ آپ لوگوں کو ناامید کرکے انہیں انتہاپسندی کے لیے مجبور کر رہے ہوتے ہیں۔
سچ کہوں تو میں نے اپنی 40 سالہ زندگی میں ایسی تقریر نہیں سنی۔ میں نے پرچی تھامے حکمران دیکھے ہیں جو نہ سوچ سکتے ہیں نہ بول سکتے ہیں۔
کشمیر کب آزاد ہوگا، کشمیریوں کو حق خودارادیت کب نصیب ہوگا؟ کچھ معلوم نہیں لیکن عمران خان نے کشمیر کے لیے سب سے زیادہ آواز بلند کی، عالمی برادری کے سامنے شاندار انداز میں کشمیر کا مقدمہ لڑا۔ پاکستانی قوم اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔
تاریخ پاکستان اٹھا کر دیکھ لیجیے امریکا کے سامنے کسی نے اس طرح کا لہجہ استعمال نہیں کیا۔ امریکا اس وقت سفید فام بالادستی کے حامیوں کے ہاتھ میں ہے، خود ٹرمپ ایک قوم پرست ذہنیت کا مالک ہے۔
وہ مفادات کے لیے سعودی شہزادوں اور اسرائیلی غاصبوں کے سنگین جرائم تک کو درگز کردیتا ہے۔ ٹرمپ اپنی بات پر اٹل نہیں رہتا، اسے اپنا نیشنل کارڈ ہی محبوب ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ ایک منہ پھٹ رہنما ہے، چنانچہ عمران خان نے انہی کے لہجے میں انہیں اپنا جواب دیا ہے۔
عمران خان مغربی نفسیات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر بھرپور روشنی ڈالی ہے جنہیں مغربی کافی زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ امریکا اور مغرب انسانی حقوق اور رائے کی آزادی کا راگ الاپ کر دنیا میں اپنے اثرات مرتب کر رہا ہوتا ہے۔ چنانچہ عمران خان نے کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق، حق خودارادیت اور آزادئ اظہار کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں پر جو بات اقوام عالم کے سامنے رکھی ہے وہ مغربی نفیسات کے عین مطابق ہے۔
اس خطاب کے بعد مغرب سوچ سمجھ کر اپنی بات رکھے گا اور پاکستان کو ہلکا نہیں لے گا۔ اس سے پہلے بھی عمران خان ٹرمپ کے خلاف ٹوئیٹر پر کافی متاثرکن انداز میں محاذ سنبھال چکے ہیں، یہاں بات ٹرمپ کے اس ٹوئیٹ کی ہو رہی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ، ‘ہم اب پاکستان کو مزید اربوں ڈالرز نہیں دیں گے، پاکستان ہم سے رقم لے کر بھی ہمارے لیے کچھ نہیں کرتا۔‘
تو جواباً عمران خان نے ٹرمپ کے لب و لہجے میں ٹوئیٹ کیا تھا کہ 'ستمبر 2001ء کے حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں تھا لیکن پھر بھی پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کیں اور معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان بھی ہوا جبکہ امریکی امداد صرف 20 ارب ڈالر تھی۔'
یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ اپنی ناکامیوں پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کے بجائے امریکا اپنی کارکردگی کا ایک سنجیدہ جائزہ لے کہ آخر کیوں ایک لاکھ 40 ہزار نیٹو افواج، ڈھائی لاکھ افغان فوج اور افغان جنگ میں ایک کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود طالبان پہلے سے زیادہ طاقتور ہیں‘۔
بعدازاں ٹرمپ کی جانب سے کوئی ٹھوس ردِعمل ہی نہیں آیا اور آنا بھی کیا تھا؟
لہٰذا امریکیوں کی نفسیات کو سمجھ کر ان سے بات کرنے کا پاکستان کو فائدہ پہنچے گا، اس طرح امریکا سمیت پورا مغرب پاکستان کا مؤقف بہتر انداز میں سمجھ سکے گا۔
عمران خان کی باتوں نے مودی کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ اب اطلاعات ملی ہیں کہ بھارت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جواب دینے کا حق استعمال کرنے کی درخواست دے دی ہے۔
بھارتی حکومت اب کافی زیادہ دباؤ کا شکار ہے، کیونکہ مسئلہ کشمیر اور وہاں ہونے والے مظالم کے حقائق دو چار ریاستوں کے سربراہان کے نہیں بلکہ اقوامِ عالم کے سامنے رکھے گئے ہیں۔ اس دباؤ کے پیش نظر ممکن ہے کہ کشمیر سے جلد کرفیو اٹھا لیا جائے۔
تاہم کرفیو اٹھانے یا نہ اٹھانے، دونوں صورتوں میں نقصان بھارت کا ہی ہے اور فائدہ کشمیر کا ہے۔
قصہ مختصر، یہ ایک کامیاب تقریر تھی جس نے عمران خان کو ایک سیاستدان سے ایک ایسے لیڈر کی فہرست میں لاکھڑا کیا ہے جو اپنی قوم اور مسلم امّہ کا درد رکھتا ہے۔ پاکستان کی ہی نہیں اسلام اور امّہ کی بات کرتا ہے جسے ناموسِ رسالت کی پرواہ ہے، جسے اسلام کے خلاف بڑھتے فوبیا کی فکر ہے۔
تبصرے (5) بند ہیں