کراچی کے ڈونکی راجے
لوڈر کو سجنے دھجنے کا سامان میسر نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے یادگار فتوحات دلانے والے لوڈر کے لیے پرویز مشکل سے مہنگے چارے کا ہی انتظام کرپاتے ہیں۔ تاہم پرویز وزن ڈھونے والے اس جانور کو آرام فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
کراچی کے اولڈ سٹی ایریا کی اناج منڈی میں تھکادینے والے دن کے بعد اپنے جانور کو مالش کرتے ہوئے پرویز نے کہا کہ، ’میرا گدھا میرے لیے کسی قریب ترین دوست سے کم نہیں۔‘
8 سالہ لوڈر تیسری دنیا کے معیارات کے لحاظ سے اس وقت اچھی حالت میں ہے لیکن اس کی سرگرم زندگی کا اختتام آنے میں دو سے تین سال ہی رہ گئے ہیں۔ 27 سالہ پرویز کو پانچ برس قبل لوڈر حاصل کیا تھا۔ وہ جانتے ہیں کہ جس جانور کے پیار دُلار میں کوئی کمی نہ رکھی جائے اسے مرتے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔
وہ کہتے ہیں، ’مگر یہی ریت ہے۔ جو لوگ گدھے، کُتے اور بلیاں رکھتے ہیں وہ ان سے طویل تعلق کا لُطف حاصل ہی نہیں کرپاتے۔ یہ جانور کم عمری میں ہی مرجاتے ہیں مگر یہ حقیقت ہمیں ان سے محبت کرنے سے نہیں روکتی نہیں، اس لیے ہمیں اپنی زندگی میں ہر چند برس بعد انہیں مرتے ہوئے دیکھنا ہی پڑتا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ دیگر علاقوں میں گدھوں کی عمر طویل ہوتی ہے مگر میں نے یہاں ایسا نہیں پایا ہے۔‘
لوڈر ان گدھوں میں سے نہیں ہے جو سارا دن سامان ڈھو کر اپنے مالکوں کی آمدن میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ دراصل لوڈر گدھا گاڑی کی دوڑوں میں حصہ لیتا ہے، دوڑوں کا انعقاد شہری انتظامیہ اور گدھا گاڑی والوں کی انجمنیں کرواتی ہیں اس کے علاوہ گدھا گاڑیوں کے مالکوں کی جانب سے بھی دوڑ کے مقابلے رکھے جاتے ہیں جن میں وہ نقدی شرطوں پر ایک دوسرے کو مقابلے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس قسم کی شرطوں میں گدھوں گاڑی دوڑانے والے عام طور پر چھوٹی چھوٹی رقمیں ہی داؤ پر لگاتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ تماشائی بھی اپنی اپنی پسند کے گدھوں پر بھاری رقمیں لگاتے ہیں۔
پرویز اس قسم کی کئی دوڑیں جیت چکے ہیں اور کچھ میں ہار بھی نصیب ہوئی ہے مگر وہ ان شکستوں کا ذمہ دار لوڈر کو نہیں ٹھہراتے بلکہ حریفوں کو مناسب انداز میں پرکھنے میں ناکامی تسلیم کرتے ہوئے خود کو ہی ہار ذمہ دار قرار دیتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ، ’ہمارے بڑوں کا کہنا ہے کہ دوڑ کا چیلنج قبول کرنے سے قبل حریفوں کو پرکھنے میں ہی عقلمندی ہے۔ حریف ہمیشہ ہم پلہ یا کم تر ہونا چاہیے لیکن مجھ سے اکثر اس معاملے میں چونک ہوجاتی ہے اور یوں کچھ موقعوں پر میرے جانور کو دھول چاٹنی پڑی ہے۔‘
تاہم دوڑ میں صرف حریفوں اور اپنی قوت کو پرکھنے سے ہی کام نہیں چلتا۔ خوراک کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ پرویز دوڑ میں حصہ لینے والے گدھوں کو دودھ میں بھگوئے ہوئے بادام اور کشمش جیسے خشک میوہ جات پر مشمتل کھلائی جانے والی خوراک اپنے گدھے کو کھلانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں اپنے گدھے کو جو اور گھاس اور کبھی کبھار چنے ہی کھلا پاتا ہوں مگر مہنگائی کے باعث اس خوراک کا بندوبست کرنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔‘
کچھ ماہ پہلے تک پرویز لوڈر پر 5 ہزار روپے خرچ کرتا تھا مگر اب وہ اس پر کم سے کم بھی 10 ہزار روپے خرچ کرتا ہے جبکہ اس کی آمدن میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ پرویز لیاری میں دو کمروں پر مشتمل فلیٹ میں رہتا ہے اور رات میں وہ لوڈر کو قریبی کمپاؤنڈ میں رکھتا ہے۔
پرویز کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ تر دوڑ میں حصہ لینے والے گدھے سارا سارا دن وزن ڈھونے کے عادی نہیں ہوتے۔ جو لوگ صاحبِ استطاعت ہیں وہ انہیں صرف دوڑ میں حصہ دلوانے کے لیے پالتے ہیں اور ان کی خوراک اور ٹریننگ پر ماہانہ کم سے کم 30 ہزار روپے خرچ کرتے ہیں۔
غلام علی ان افراد میں سے ایک ہیں جن کے پاس ہر فن مولا گدھے ہیں۔ ان کے پاس ایرانی گدھوں کا جوڑا بھی ہے۔ ایرانی گدھے تیز ٹانگوں کے ساتھ کافی پھرتیلے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں دوڑ کے لیے ہر طرح سے بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ دوڑ کے لیے اچھے گدھوں کی فہرست بنائی جائے تو ان کے بعد مکران، حیدرآباد اور لسبیلہ کے گدھوں کو بہتر مانا جاتا ہے۔
غلام علی کہتے ہیں کہ ’دوڑ کا اصل مقصد پیسوں کا حصول نہیں بلکہ فتح حاصل کرنا ہے۔ جتنی رقم ہم دوڑ میں جیتتے ہیں اس سے زیادہ پیسے تو ہم اپنے گدھوں پر خرچ کرتے ہیں۔‘
دوڑ کے طے شدہ دن سے ایک روز قبل عام طور پر گدھوں کو آرام کرایا جاتا ہے۔ دوڑ کے ابتدائی مقام پر گدھوں کو بذریعہ ٹرک پہنچایا جاتا ہے تاکہ انہیں خود سے وہاں پہنچنا نہ پڑے اور تھکاوٹ کا شکار نہ ہوں۔
لوڈر جیسے گدھے ان سے مختلف ہیں، کیونکہ انہیں اپنے مالکان کو کام میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا فخر برقرار رکھنے کے لیے معمول سے زیادہ دوڑنا پڑتا ہے۔
اب یہ ہر جگہ اصول بن گیا ہے کہ دوڑ میں حصہ لینے والے گدھوں کو ناہموار، کھردری اور کیچڑ بھری سطح پر دوڑایا جائے تا کہ ان کے پٹھے مضبوط ہوں اور بڑے شہر کے کیچڑ زدہ سڑکوں کی خستہ حالی کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔
ملیر میں گدھوں کی دوڑ میں حصہ لینے والے ممتاز علی کا کہنا ہے کہ، ’دوڑ کے بعد اور ٹریننگ کے دوران ہم ان کی ٹانگوں کی مالش کرتے ہیں، اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر ان کی خوراک بہترین نہ سہی لیکن مناسب ضرور ہو اور وہ خوشی خوشی دوڑ میں حصہ لیں۔‘
ممتاز کہتے ہیں کہ ہر جانور کا اپنے مالک کے ساتھ تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ آپ ان کی آنکھوں میں اس طرح دیکھیے کہ وہ آپ کے تابع بن جائیں۔ آپ جانور میں یا تو اپنا خوف بٹھا سکتے ہیں یا پھر خوشی خوشی آپ کا کہنا ماننے کا عادی بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جانور آپ کی بات خوشی خوشی مانے تو اس کے لیے انہیں مارپیٹ کے بجائے نفیس انداز میں اشاروں کے ذریعے یا ان سے ہم کلام ہو کر اپنا پیغام ان تک پہنچانا سیکھیں جس کا وہ زبانی جواب بھلے ہی نہ دیں لیکن انہیں آپ کا پیغام ضرور مل جائے گا۔‘
دوڑ کے لیے خصوصی گاڑیاں بنائی جاتی ہیں جنہیں کراچی کے علاقے جہان آباد میں موجود مخصوص بڑھئی ڈالبرگيا درخت اور کیکر کی لکڑی سے تیار کرتے ہیں۔ چونکہ ایرانی نسل کے پھرتیلے گدھے دوڑ کے لیے بہترین تصور کیے جاتے ہیں اس لیے ان کی گاڑیوں کو بھی معمول سے ہٹ کر پتلے پہیوں کے ساتھ چھوٹا بنایا جاتا ہے۔
گدھوں کے کاروبار میں شامل افراد کا کہنا ہے کہ گدھوں کی دوڑ کا سلسلہ اس شہر جتنا ہی پرانا ہے۔ ابتدائی طور پر چند صدیاں پہلے اس کی شروعات سندھ کی ساحلی پٹی پر بسے مچھیروں نے کی تھی۔ بعدازاں دھوبی بھی اس سلسلے کا حصہ بن گئے، خاص طور پر وہ دھوبی جو آزادی کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔ انہوں نے رنگ برنگی سجی دھجی گاڑیاں متعارف کرواکر اس کھیل کو مزید مزیدار بنا دیا۔
شیخ نثار فٹ بال، سائیکلنگ، باکسنگ اور گدھا گاڑیوں کی ریس جیسے کراچی کے مقامی کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے کوشاں گمشدہ ہیرو ہیں، ان کا حال ہی میں ایک افسوسناک حادثے میں انتقال ہوا ہے۔ وہ کراچی کے اندر گدھا گاڑیاں دوڑانے والے افراد کی ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں لائے اور انتظامیہ کو اس کی سرپرستی کرنے پر قائل بھی کیا۔
جب لیاری میں منشیات فروش گینگ کے درمیان تصادم عام تھے ان دنوں نثار نے گدھوں کو مارے جانے کے خلاف زبردست انداز میں احتجاج کیا تھا۔ نثار کہا کرتے تھے کہ، ’میں ان معصوم جانوروں کے قتل پر اس لیے آواز اٹھاتا ہوں کیونکہ یہ بے زبان اپنے لیے آواز اٹھانے سے قاصر ہیں۔‘
گزشتہ برس ایسو سی ایشنز کی جانب سے دوڑ کا انعقاد کیا گیا جس میں شرکا نے اپنی اپنی گدھا گاڑیوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے پرچموں سے سجایا تھا۔
پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے گدھے پر مخالف جماعت کے رہنما کا نام پر لکھ کر اسے پیٹنے کے واقعے کی جہاں حقوقِ حیوانات کے کارکن دکھ کا اظہار کرتے ہیں وہیں یہ لوگ بھی اس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ پرویز کے مطابق، ’یہ جانور ہی ہمارے روزگار کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ہمارا حکم مانتے ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ہم اپنی گاڑیوں کو پارٹی پرچموں سے سجاتے ہیں اور اپنے اپنے لیڈر کے حق میں نعرے بھی بلند کرتے ہیں لیکن یہ سب ہم ہی کر رہے ہوتے ہیں گدھوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پھر کیوں انہیں اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جائے؟‘
یہ مضمون 22 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار کے ایؤس میگزین میں شائع ہوا۔