سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زونز کے قوانین پر نظر ثانی
اسلام آباد: سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین زبیر گیلانی نے پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ حکومت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈ) میں خامیوں کو کم کرنے کے لیے قوانین میں نظر ثانی کر رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زبیر گیلانی نے سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے سی پیک کو بریفنگ میں بتایا کہ 'قانون سازی اور زمینی چیلنجز کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں تھی، خصوصی اقتصادی زونز ایکٹ پر نظر ثانی کی جارہی ہے تاکہ اسے مضبوط قانونی تحفظ اور مزید مراعات و فوائد مل سکیں'۔
کمیٹی کے اجلاس میں چھوٹے اور درمیانے انٹرپرائزز اور خصوصی اقتصادی زونز، سی پیک کے راستے میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی، گوادر میں کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کے لیے نیپرا کی جانب سے ٹیرف کے تعین میں تاخیر کے علاوہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) کے دوسرے مرحلے پر تفصیلی بحث کی گئی۔
مزید پڑھیں: سی پیک منصوبوں کی بروقت تکمیل کیلئے اتھارٹی کے قیام کا اعلان
زبیر گیلانی نے اجلاس میں بتایا کہ ایس ای زیڈ کے قوانین میں ترمیم سے موجودہ مالی خسارے میں کمی میں مدد ملے گی جو گزشتہ چند سالوں میں بہت زیادہ بڑھ دیا ہے اور اس سے پاکستان اور چین دونوں کو فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ قوانین میں ترمیم سے برآمدات کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
سینئر حکام نے سی پیک کے تحت 3 ایس ای زیڈ، خیبر پختونخوا میں رشکئی، فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی اور ٹھٹہ میں دھابیجی میں گزشتہ سال بے مثال کارکردگی کا دعویٰ کیا۔
سیکریٹری منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات ظفر حسین کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومتوں نے ایس ای زیڈ بنائے جانے کے لیے 9 مقامات کی نشاندہی کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'صنعتی تعاون کے آغاز سے قبل حکومت نے پہلے ہی چین کو درکار فوائد اور رعایت کے حوالے سے ان کے ساتھ کام کا آغاز کردیا، ہم نے ایک خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر تحقیق کی ہے، ہم ایس ای زیڈ کو مزید مراعات دینا چاہتے ہیں کیونکہ حکومت کا ہدف طویل المدتی فوائد ہیں'۔
تاہم کمیٹی نے قوانین میں ترمیم کو حکومت کا ایک اور 'یو ٹرن' قرار دیا۔
کمیٹی کی چیئر پرسن پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن کا کہنا تھا کہ 'اس پر اعتماد بہت کم ہے، کاروبار کے لیے سب سے پہلی چیز ٹیکس کے ماحول اور دیگر انفرا اسٹرکچر کے بارے میں کاروبار کے ماحول کی پیش گوئی ہوتی ہے، ہم چینی اور دیگر سرمایہ کاروں کی توجہ اپنی جانب حاصل کرنے کے لیے مستقل مزاجی نہ ہونے کا اشارہ دے رہے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے سی پیک قرضوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا، آئی ایم ایف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی نے خدشہ ظاہر کیا کہ سی پیک کے حوالے سے ماضی کے تمام اقدامات ان نئی ترامیم کے بعد بیکار ہوجائیں گے۔
انہوں حکومت کے اس اقدام کو مشکل پیدا کرنے والا اور 'یو ٹرن' قرار دیا۔
کمیٹی نے سی پیک منصوبوں کی نگرانی کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کے بل پر بھی بحث کی۔
کمیٹی پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر اس طرح کی کسی بھی دستاویزات کی حمایت نہ کرنے پر متفق رہی۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے مطالبہ کیا کہ سی پیک اتھارٹی کے ٹرمز آف ریفرنسز کو اراکین کے سامنے رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'سینیٹ، سی پیک اتھارٹی کے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے قیام کی مخالفت کرے گا، اسے صرف پارلیمانی اقدام سے صوبوں کے اتفاق رائے سے قائم کیا جاسکتا ہے'۔
انہوں نے متعدد مرتبہ زور دیا کہ پیش کردہ اتھارٹی صوبوں میں تعاون بڑھانے کے لیے ہے نہ کہ خرابی پیدا کرنے والے منصوبہ بندی کے مرحلے کو مرکزی شکل دینے کے لیے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اس میں صوبوں کی نمائندگی اور پارلیمنٹ کی منظوری ہونی چاہیے نہ کہ آرڈیننس کے ذریعے اس کا اطلاق کردیا جائے'۔
کمیٹی نے سی پیک کے تحت منصوبوں میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا۔
کمیٹی نے بلوچستان کے بوستان انڈسٹریل زون کو ایس ای زیڈ کی ترجیحی فہرست میں شامل نہ کیے جانے پر نوٹس بھی لیا۔