• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

ایران کا سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ

شائع September 26, 2019
یمن کے حوثی باغیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی—فوٹو: رائٹرز
یمن کے حوثی باغیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی—فوٹو: رائٹرز

ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’یمن میں جارحیت ختم کرنے کے ساتھ ہی سعودی عرب کی سیکیورٹی کی ضمانت دیتے ہیں‘۔

مزیدپڑھیں: امریکا اور ایران اپنے تنازعات مذاکرات سے حل کریں، پاکستان

انہوں نے کہا کہ ’سعودی عرب غیرملکیوں کو دعوت دینے کے بجائے یمن میں محاذ آرائی ختم کرے‘۔

واضح رہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کو ایرانی حمایت حاصل ہے اور سعودی عرب کی جانب سے ادھر فضائی حملے جاری ہیں جس کے نتیجے میں انسانی بحران پیدا ہو گیا۔

یمن میں لاکھوں افراد فضائی حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں اور کروڑوں لوگ قحط سالی کا شکار ہیں۔

واضح رہے کہ 14 ستمبر کو سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری حال ہی میں امریکا اور سعودی عرب نے ایران پر عائد کی تھی۔

دوسری جانب یمن کے حوثی باغیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کے ساتھ تنازع: امریکا نے خلیج فارس میں پیٹرائٹ میزائل دفاعی نظام بھیج دیا

امریکی حکام نے الزام لگایا تھا کہ حوثی باغی حساس نوعیت کے ہتھیار چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

دوسری جانب حسن روحانی نے امریکی اقدامات کے پیش خطے کے دیگر ممالک کو ’اتحاد برائے امید‘ میں شمولیت اختیار کرنے کی دعوت دی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ممالک وعدہ کریں کہ وہ ایک دوسرے کے امور میں مداخلت اور ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار نہیں کریں گے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ’امریکی فوجیوں کی بے دخلی کے ساتھ ہی خطے میں سیکیورٹی بہتر ہوجائے گی‘۔

انہوں نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں نام لیے بغیر سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو مخاطب کر کے کہا کہ ’امریکا نہیں بلکہ ہم ایک دوسرے کے پڑوسی ممالک ہیں، کسی بھی واقعہ کی صورت میں ہم اور آپ تنہا نہیں رہیں گے‘۔

خیال رہے کہ امریکا کی جانب سے ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری کے اعلان اور ایران پر پابندی کے دوبارہ نفاذ کے بعد ایرانی معیشت بحران کا شکار ہوگئی ہے، جس سے دونوں ممالک میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

مزیدپڑھیں: امریکا، ایران کشیدگی کے باوجود جنگ کے امکانات مسترد

واشنگٹن کی جانب سے جوہری معاہدہ منسوخ کیے جانے کے بعد تہران پر متعدد اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی تھیں، تاہم ایران کو معاہدے کے دو نکات پر تجارتی استثنیٰ حاصل تھا۔

اسی دوران امریکا نے ایران کی پاسداران انقلاب کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔

یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایران پر زور دیا تھا کہ وہ جوہری معاہدے کی پاسداری جاری رکھے۔

بعدازاں ایران نے امریکی پابندیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی عدالت سے رجوع کیا اور عدالت نے واشنگٹن کو تہران پر عائد بعض پابندیاں ختم کرنے کا حکم دے دیا۔

کیس کے ابتدائی فیصلے میں کہا تھا کہ امریکا ایران کو ادویات، طبی آلات ،خوراک اور زرعی مصنوعات اور جہاز کے پُرزوں کی فراہمی پر عائد پابندی کو ختم کرے۔

مزیدپڑھیں: 'امریکی جارحیت پر ایران کے اسرائیل پر حملے کا خدشہ'

گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں امریکا اور ایران کے صدور نے اپنے خطابات میں ایک دوسرے پر طنز اور الزامات کی بوچھاڑ کردی تھی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگانے کا عندیہ دیا تھا اور حسن روحانی نے امریکی صدر کو ’عقل کی کمزوری‘ کے مرض میں مبتلا قرار دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024