• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

سندھ ہائی کورٹ نے 'نمرتا کی پراسرار موت' کی عدالتی تحقیقات کی اجازت دے دی

شائع September 26, 2019
نمرتا چندانی کی لاش ہوسٹل کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی—فوٹو:ٹویٹر
نمرتا چندانی کی لاش ہوسٹل کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی—فوٹو:ٹویٹر

سندھ ہائی کورٹ نے بی بی آصفہ ڈینٹل کالج کی فائنل ایئر کی طالبہ نمرتا چندانی کی پراسرار موت کی عدالتی تحقیقات کی اجازت دے دی جس کے بعد لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج 27 ستمبر سے تحقیقات شروع کردیں گے۔

لاڑکانہ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) عرفان علی بلوچ نے عدالتی پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ایس ایس پی لاڑکانہ مسعود بنگش کے ہمراہ سیشن جج سے اس حوالے ایک ملاقات بھی کرلی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جج 27 ستمبر کو تحقیقات کا آغاز کردیں گے'۔

ڈی آئی جی لاڑکانہ کا کہنا تھا کہ ایس ایس پی مسعود بنگش اس کیس میں اپنے تفتیش کے ذریعے جج کی معاونت کریں گے اور طلبہ کی ملوث ہونے کے حوالے سے متعلقہ رپورٹس اور تفتیش کے دوران دیگر پہلووں سے ہونے والی پیش رفت سے بھی آگاہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ جج متوقع طور پر ہوسٹل کے اس کمرے کا بھی دورہ کریں گے جہاں سے طالبہ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

مزید پڑھیں:میڈیکل کی طالبہ کی پراسرار موت، سندھ حکومت کی عدالتی تحقیقات کیلئے درخواست

ان کا مزید کہنا تھا کہ موبائل فون، لیپ ٹاپ کی فرانزک رپورٹ پولیس نے اپنی تحویل میں لے لی ہے جو جج کو فراہم کی جائے گی۔

یاد رہے کہ سندھ حکومت نے 18 ستمبر کو لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو عدالتی تحقیقات کے لیے درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ 30 روز میں محکمہ داخلہ میں اس کی رپورٹ جمع کرادی جائے۔

لاڑکانہ کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سندھ حکومت کی جانب سے عدالتی تحقیقاتی کے لیے لکھے گئے خط پر سندھ ہائی کورٹ کی اجازت کے منتظر تھے۔

واضح رہے کہ 16 ستمبر کو نمرتا چندانی کو ہوسٹل کے کمرے میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا جس کے بعد ان کے اہل خانہ، ہندو برادری اور دیگر حلقوں کی جانب سے موت کو مشکوک قرار دیتے ہوئے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

پولیس نے تحقیقات کے سلسلے میں نمرتا کے 2 ساتھی طا لب علموں کو حراست میں لیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں طلبہ کو مشکوک ہونے پر حراست میں لیا گیا کیونکہ تحقیقات کے دوران دونوں کے بیانات میں تضاد تھا، جس پر مزید تفتیش کے لیے ان کو حراست میں لیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024