• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کا مزید جسمانی ریمانڈ مسترد، جیل منتقل

شائع September 25, 2019
مریم نواز کی عدالت میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی موجود تھے—فوٹو: عدنان شیخ
مریم نواز کی عدالت میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی موجود تھے—فوٹو: عدنان شیخ

لاہور: احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز اور ان کے کزن یوسف عباس کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت میں جج امیر محمد خان نے چوہدری شوگر ملز کیس کی سماعت کی، جہاں مریم نواز اور یوسف عباس کو پیش کیا گیا۔

عدالت میں پیشی کے ساتھ ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کے حکام نے دونوں ملزمان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

نیب کی جانب سے حافظ اسد اللہ اور حارث قریشی نے دلائل دیے اور کہا کہ مریم نواز اور یوسف عباس سے چوہدری شوگر ملز میں مزید تفتش درکار ہے، دوران تفتیش دونوں ملزمان کے خاندان کی جائیداد کی تقسیم کے معاہدے کا معلوم ہوا ہے۔

پراسیکیوٹر نیب نے بتایا کہ چوہدری شوگر ملز کے ایک کروڑ 45 لاکھ 58 ہزار کے شیئرز میاں نواز شریف، شہباز شریف، عباس شریف، بہن کوثر اور والدہ شمیم بیگم میں تقسیم ہوئے جبکہ ایس ای سی پی ریکارڈ کے مطابق 2008 میں 2 کروڑ 62 لاکھ شیئرز چوہدری شوگر ملز کے تھے۔

مزید پڑھیں: 42 روز میں کرپشن سےمتعلق ایک سوال نہیں کیا گیا، مریم نواز

انہوں نے کہا کہ دوران تفتیش ایک کروڑ 16 لاکھ 96 ہزار شیئرز کا فرق آیا ہے، مذکورہ شیئرز شریف خاندان کے اثاثوں میں شامل نہیں تھے جبکہ 2008 میں مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، اثاثوں اور آمدن کی تحقیقات کے لیے شریف خاندان کے افراد کو طلب کرنا ہے۔

دلائل کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملزمہ مریم نے 1998 میں ٹیلی گرافک ٹرانسفر کے ذریعے رقم صدیقہ سعید محمود سے وصول کی اور بعد میں یہ رقم چوہدری شوگر ملز کو منتقل کر دی گئی، اسی سال میں 16 کروڑ روپے ملزمہ کو ملے مگر رقم بھجوانے والی خاتون کا ملزمہ سے کوئی تعلق واضح نہیں۔

انہوں نے کہا کہ رقم بھجوانے والی خاتون صدیقہ سعدیہ نے چوہدری شوگر ملز کا قرض ادا کیا۔

دوران سماعت عدالت نے پوچھا کہ مریم نواز کی تاریخ پیدائش کیا ہے، اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ مریم نواز کی پیدائش کا سال 1973 ہے مگر تاریخ کا علم نہیں۔

اس پر عدالت میں موجود مریم نواز نے کہا کہ میری تاریخ پیدائش 28 اکتوبر 1973 ہے۔

بعد ازاں اپنے دلائل میں نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز 2015 میں گوجرہ سے رحیم یار خان منتقل کی گئی، چوہدری شوگر ملز کی منتقلی کے دوران ڈیڑھ ارب روپے لگائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ شوگر ملز منتقلی کے لیے خرچ ہونے والی رقم کے ذرائع آمدن کا بھی تعین کرنا باقی ہے، 3 غیر ملکیوں نے 2008 میں مریم نواز کے نام پر شیئرز بھجوائے پھر وہی شیئرز یوسف عباس نے میاں نواز شریف کو منتقل کردیے۔

پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ 48 لاکھ ڈالرز یوسف عباس کو ٹیلی گرافک ٹرانسفر کیے گئے جو چوہدری شوگر ملز کو بھجوائے گئے، اس ملز کے ڈائریکٹرز اور شیئر ہولڈز کو فائدہ دینے کے لیے رقم منتقل کی گئی۔

اس موقع پر نیب کے پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے پر مریم نواز کے وکیل نے دلائل دیے۔

ملزم کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف پر چوہدری شوگر ملز کی منی لانڈرنگ کا فائدہ لینے کا الزام لگایا گیا، میاں نواز شریف کی فیملی کے 2016 سے چوہدری شوگر ملز میں کوئی بھی شیئرز نہیں رہے۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز سے چوہدری شوگر ملز کے مالیاتی امور کی تفصیلات طلب

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 1994 سے لیکر نواز شریف خاندان کی تحقیقات ہو چکی ہیں، شیئرز کی خرید و فروخت ایس ای سی پی اور کمپنیز ایکٹ کے تحت ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایس ای سی پی ریگولیٹری سرگرمیوں پر کارروائی کا مجاز ہے، نیب کو اس پر تحقیقات کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1991 میں چوہدری شوگر ملز قائم ہوئی، شیئرز کی منتقلی 2008 میں ہوئی جبکہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں نافذ العمل ہوا جبکہ اس ایکٹ کا نفاذ گزشتہ تاریخوں سے نہیں کیا جاسکتا۔

ملزمہ کے وکیل نے بتایا کہ مریم نواز سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا، اس دوران نیب پراسکیوٹر اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ میں تلخ کلامی ہوئی۔

تاہم جج کی جانب سے کیس پر دلائل جاری رکھنے کی ہدایت کی گئی جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ہم نے شریف خاندان کو شیئرز منتقل کرنے والے ملزموں کو شامل تفتیش کرلیا۔

اس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ صادقہ سید کی ٹی ٹیز سے متعلق حدیبیہ پیپز ملز کیس میں لاہور ہائیکورٹ فیصلہ کر چکی ہے، نیب کی جرات دیکھیں کیس سے متعلق عدالت میں غلط بیانی کرتے ہیں، نیب والے مریم نواز کو ذہنی ٹارچر کرتے ہیں۔

لیگی نائب صدر کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز کے کمرے سے بدبو آتی ہے کمرے کی صفائی نہیں کی جاتی، نیب کی جسمانی ریمانڈ کی گزشتہ 3 درخواستیں پرانی ہیں، ان میں کوئی رد و بدل نہیں کیا گیا۔

مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کی جائیداد تقسیم کا معاہدہ پہلے دن سے نیب کے پاس ہے، میاں شریف 2004 میں فوت ہوئے اور 2008 میں شیئرز تقسیم ہوئے.

دلائل کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مریم نواز اور یوسف عباس پر میاں نواز شریف کی منی لانڈرنگ میں معاونت کرنے کا الزام لگایا گیا مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا، ذہنی اذیت دی جاتی ہے، گزشتہ 7 روز میں ملزمہ سے تفتیش ہی نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت

امجد پرویز کا کہنا تھا کہ کھانا باہر رکھ دیا جاتا ہے اور ان کی موکلہ کو کہا جاتا ہے کہ خود اٹھا لیں، مریم نواز کے کمرے سے تعفن اٹھتا ہے، کئی کئی روز صفائی نہیں کروائی جاتی۔

بعد ازاں عدالت نے مریم نواز اور یوسف عباس کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی۔

عدالت نے مریم نواز کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دے دیا، اس پر مریم نواز نے کوٹ لکھپت جیل میں بھیجنے کی استدعا کی۔

وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کیمپ جیل میں خواتین ملزمان کے لیے کوئی انتظام نہیں جبکہ ساتھ ہی مریم نواز نے کہا کہ میری آپ سے درخواست ہے کہ مجھے کوٹ لکھپت جیل منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔

مریم نواز نے کہا کہ میرے گھر کی ضرورت کا سامان ماڈل ٹاؤن سے آسکتا ہے لہٰذا کوٹ لکھپت کا حکم کر دیں، اس پر عدالت نے حکم میں لکھا کہ جیل حکام قانون کے مطابق دیکھ لیں کہاں منتقل کرنا ہے۔

واضح رہے کہ مریم نواز کو آج 5ویں مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ وہ 48 دن تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں رہی تھیں۔

بعد ازاں مریم نواز کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا، جہاں ان کے والد اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں قید کاٹ رہے ہیں۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا مریم نواز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، منی لانڈرنگ کی تحقیقات کا آغاز

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی اور، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024