• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

ایرانی صدر حسن روحانی کو نیو یارک میں سفری پابندیوں کا سامنا

شائع September 24, 2019
پابندیوں کے تحت حسن روحانی اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز سے زیادہ دور نہیں جاسکتے— فائل فوٹو: اے ایف پی
پابندیوں کے تحت حسن روحانی اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز سے زیادہ دور نہیں جاسکتے— فائل فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ: ایران کے صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچ گئے تاہم ان کی موجودگی کے دوران انہیں شہر کے زیادہ تر مقامات تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایران کے صدر کو اس ہی طرح کی سفری پابندیوں کا سامنا ہے جو جولائی کے مہینے میں ایرانی مشن کے اسٹاف پر لگائی گئی تھیں۔

پابندیوں کے تحت حسن روحانی اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز سے زیادہ دور نہیں جاسکتے، یہ مقام مین ہیٹن جزیرے کے مشرقی حصے میں قائم ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ایران کے مرکزی بینک پر پابندی عائد کردی

تاہم امریکی حکومت نے انہیں ہوٹل میں قیام کی خصوصی اجازت دے رکھی ہے۔

واضح رہے کہ حسن روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بدھ کے روز خطاب کریں گے اور پریس کانفرنس بھی کریں گے۔

ایرانی رہنما کو فرسٹ ایونیو اور جنوب میں ایسٹ 42 اسٹریٹ اور شمال میں ایسٹ 48 اسٹریٹ تک محدود کیا گیا ہے۔

اس ہی طرح کی پابندیاں ماضی میں امریکا کے ناپسندیدہ عالمی رہنماؤں پر بھی عائد کی گئیں تھیں، جن میں کیوبا کے سابق رہنما فیدل کاسٹرو بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ایران، خطے کی کشیدگی کم کرنے کیلئے اقوام متحدہ میں منصوبہ پیش کرے گا‘

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں گزشتہ ہفتے اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے جس کے بعد تیل برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے اپنی پیداوار روک دی تھی۔

سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا اور سعودی عرب دونوں نے ایران کو اس کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا تاہم ایران نے ان بیانات کو جنگ کے لیے ایک بہانہ قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ایران جنگ کے لیے تیار ہے اس لیے کسی قسم کی جارحیت سے گریز کیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024