• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی، وزیراعظم

شائع September 23, 2019 اپ ڈیٹ September 26, 2019
وزیراعظم نے کونسل آن فارن ریلیشنز میں سوالوں کے جواب دے رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز
وزیراعظم نے کونسل آن فارن ریلیشنز میں سوالوں کے جواب دے رہے تھے—فوٹو:ڈان نیوز

وزیراعظم عمران خان نے نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے اور معیشت کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

تھنک ٹینک کونسل فار فارن ریلیشنز میں گفتگو کے دوران پاکستان کی معیشت سے متعلق ایک سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ 'معیشت میں جب خسارہ ہوتو کامیابی حاصل نہیں کرسکتے اسی لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا اور ہمیں بدقسمتی سے بدترین کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملا لیکن ہم نے تقریباً 70 فیصد خسارہ کم کیا ہے اور ہم صحیح سمت کی جانب گامزن ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب ہم حکومت میں آئے تو بدترین معاشی صورت حال تھی اور چین نے ہماری مدد کی اگر چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات مدد نہ کرتے تو ہم دیوالیہ کی طرف جارہے تھے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اس وقت چین ہمیں تجارتی مواقع فراہم کررہا ہے اور چینی صنعت کو پاکستان منتقل کرنے کا اچھا موقع ہے'۔

افغانستان میں امریکی جنگ میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان میں پہلے جہادی پیدا کیے گئے اور پھر ان کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی امریکی قانون سازوں سے ملاقات، بھارتی مظالم سے آگاہ کیا

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'نائن الیون کے بعد امریکا کے ساتھ شامل ہونا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے، بعض پاکستانی ماہرین معیشت کہتے ہیں کہ 150 ارب سے زائد اور بعض کہتے ہیں 200 ارب سے زیادہ معیشت کو نقصان ہوا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں پاکستان کے لیے یہ بدترین وقت اور اب سبق مل گیا اور پاکستان کو پتہ ہے، اور جب میٹس کہتا ہے کہ پاکستان انتہاپسند ریاست ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ یہاں جہادی پیدا کیے گئے اور بعد میں ان کو مارنا شروع کیا گیا اسی لیے ہم مشکلات کا شکار ہوئے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'افغانستان کا حل فوجی نہیں ہے اور یہ بات میں حکومت پاکستان کو کہتا رہا ہوں، 2008 میں جب بارک اوباما صدر نہیں بنے تھے اس وقت ڈیموکریٹ کے سینئر سے بات کی تھی کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں کیونکہ وہاں کی تاریخ ہے، تین مرتبہ برطانیہ وہاں رہا لیکن مزاحمت ہوئی، روس نے 10 لاکھ افغانوں کو مارا اس کے بعد بھی مزاحمت ہوئی'۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں لاکھوں افغان شہری رہتے ہیں، ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ کون آرہا ہے اور کون یہاں سے جارہا ہے، وہاں کوئی سرحد نہیں ہے، ڈیورنڈ لائن برٹش حکام نے بنائی اور اب ہم وہاں باڑ لگارہے ہیں۔

اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ’میں ایبٹ آباد واقعے کی تحقیقات کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا، اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنا تھا اور اس کی حتمی رپورٹ کیا تھی مجھے اس کا علم نہیں، لیکن میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نے القاعدہ کی تربیت کی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جب ہم نے نائن الیون کے بعد 180 ڈگری سے اپنی پالیسی تبدیل کی اور ان گروہوں کے خلاف کارروائی شروع کی تو تمام حلقوں بشمول فوج کے اندر بعض عناصر نے اس پالیسی سے اتفاق نہیں کیا تھا اور پھر سب نے دیکھا کہ پاکستان میں کئی حملے ہوئے جن میں جنرل پرویز مشرف پر بھی دو حملے شامل ہیں۔

تاہم عمران خان نے کہا کہ اس معاملے (اسامہ بن لادن کی موجودگی) پر اوباما کا بیان موجود ہے کہ آئی ایس آئی اور آرمی چیف کو بھی اس حوالے سے کوئی علم نہیں تھا اور اگر ایسا کچھ تھا تو وہ نچلی سطح پر ہوگا۔

'بھارت نے پلواما واقعے کے بعد بمباری کی'

وزیراعظم نے کہا کہ 'نریندر مودی سے شروع دن بات کی اور کہا کہ ہمارے ایک جیسے مسائل ہیں، ہمارے ہاں غربت ہے، موسمیاتی تبدیلی کے مسائل ہیں کیونکہ برصغیر گلیشیئرز ختم ہورہی ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ میں نے مودی سے کہا 'آئیے نئے باب کا آغاز کرتے ہیں اور ہمارے تعلقات کو بحال کرتے ہیں، انہوں نے دہشت گردی پر بات کی اور میں نے یقین دلاتا ہوں کہ یہ ہماری پالیسی ہے کہ ہم پاکستان میں کسی انتہا پسند گروپ کو اجازت نہیں دیں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'اگر فوج ہماری مدد نہیں کرتی تو ہم 80 کی دہائی کی انتہاپسند تنظیموں کی باقیات کا خاتمہ کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور ان سے کہا کہ آپس میں اعتماد کی بنیاد پر تعلقات بحال کرتے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'پلواما میں کشمیری لڑکے نے بھارتی فوج وفد پر خود کو اڑا دیا تو انہوں نے فوری طور پر ہمیں الزام دیا لیکن میں نے کہا کہ ایک ثبوت دیں کہ پاکستان ملوث تھا ہم کارروائی کریں گے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'انہوں نے ہم پر بمباری کی، ان کے طیارے آئے ہم نے جواب دیا اور دو طیارے گرا دیے ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیا لیکن ہم نے فوری واپس کردیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت کی انتخابی مہم کے دوران مکمل طور پر پاکستان کے خلاف باتیں کی گئیں اور کہتے رہے کہ پاکستان کو سبق سکھائیں گے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'بھارت انتخابات کے بعد ہمیں ایف اے ٹی ایف میں بلیک لسٹ کرنے کی جانب دھکیلنے لگا اور ہمیں دیوالیہ کرنے لگا جس پر ہم نے سوچا کہ یہ ایک ایجنڈا ہے'۔

'کشمیری 50 روز سے محصور ہیں'

مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ 'اس وقت صورت حال یہ ہے کہ 80 لاکھ کشمیری 50 روز سے اندر محصور ہیں جنہیں 9 لاکھ بھارتی فوج نے گھروں میں محصور کردیا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'کشمیر عالمی قوانین سے منسلک ہے اور یہ خطہ پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع ہے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیر کے عوام کو خود ارادیت کا حق دیا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں:’کشمیریوں کو زندہ درگور کردیا گیا، اقوام متحدہ قراردادوں پر عملدرآمد کروائے‘

انہوں نے کہا کہ 'مجھے عالمی برادری سے کم از کم یہ توقع ہے کہ وہ کرفیو ہٹانے کے لیے کہیں گے جو غیر انسانی ہے اور یہ کشمیر کے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے'۔

'پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین ہیں'

پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس قانون کا نفاذ کمزور ہے، ہمارے پاس خواتین کے تحفظ کے قوانین ہیں، کمزور طبقے اور اقلیتوں کے تحفظ کے قوانین ہمارے پاس ہیں لیکن جب نفاذ کا وقت آتا تو اس میں ہم کمزور ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ '13 ماہ کے دوران ہم نے اقلیتوں اور اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کیے ہیں اور سکھ برادری کے لیے کرتار پور راہداری کھولنا غیر روایتی تھا، پاکستان بدھسٹ سولائزیشن کا مرکز رہا ہے اور ہم تمام عبادت گاہوں، ہندووں کے مزاروں کی بحالی کے لیے کام کررہے ہیں'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میری نظر میں اقلیتیں برابر شہری ہیں اور ان کے تحفظ کے لیے تمام حقوق ہیں اس کے علاوہ خواتین، کمزور طبقے اور غریبوں کے لیے پروگرام لارہے ہیں اور غربت کے خاتمے کے لیے سب سے بڑا پروگرام لے کر آرہے ہیں غربت کے خاتمے لیے تاریخ کی سب سے بڑی مہم شروع کی ہے'۔

افغانستان کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'افغانستان کے عوام جن حالات سے گزر رہے ہیں اس کو صرف پاکستان کے طور پر نہیں بلکہ انسانیت کے طور پر ہمیں امن کے لیے دعا کرنا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'دو ہی راستے ہیں ایک فوج کا استعمال ہے جو ابھی چل رہا اور فوجی کارروائی کوئی حل نہیں ہے، دوسرا حل امن مذاکرات ہے اور جب یہ شروع ہوتے ہی ختم ہوگئے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ 2001 کے طالبان نہیں ہیں کیونکہ بہت کچھ ہوچکا ہے اور اب وہ تعاون کرنے والے ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'طالبان وفد مجھ سے ملنا چاہتا تھا اور افغان حکومت نہیں چاہتی تھی میں طالبان وفد سے ملوں اس لیے میں طالبان وفد سے نہیں ملا اور میں نے اشرف غنی سے کہا کہ اگر میں ان سے ملوں گا تو انہیں اس بات پر قائل کروں گا جو آپ کررہے ہیں کیونکہ حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات نہیں ہورہے تھے'۔

'چین نے ہماری مدد کی'

وزیراعظم نے کہا کہ 'چین کے ساتھ سے ہمارے خصوصی تعلقات ہیں اور چین اس وقت ہماری مدد کو آیا جب ہم بہت نیچے جاچکے تھے تاہم مختلف معاملات پر ہم نجی سطح پر بات کرتے ہیں جس کو یہاں بیان نہیں کروں گا'۔

انہوں نے اپنی حکومت کو درپیش مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'جب میں نے 13 ماہ قبل پاکستان میں حکومت سنبھالی تو معیشت کے بڑے بحران کا سامنا تھا، ہمیں افغانستان میں مسئلہ تھا جس کو حل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ہم اب ایران، سعودی عرب اور امریکا میں جو ہورہا اس پر پریشان تھے جو دوسرا بارڈر ہے'۔

عمران خان نے میزبان سے ازراہ تفنن کہا کہ میں ایک ہاٹ پلیٹ پر بیٹھا ہوا ہوں، اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اور ساتھ ہی انہوں نے جواب دیا کہ یقیناً آپ کو ہارٹ اٹیک ہوجاتا۔

چین کے حوالے سے سوالات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'چین نے کبھی بھی ہماری خارجہ یا داخلہ پالیسی پر مداخلت نہیں کی، میرے خیال میں چین، پاکستان کو اقتصادی راہداری (سی پیک)یا بیلٹ اینڈ روڑ کے لیے دیکھ رہا ہے اور اس کی تجارت پر توجہ مرکوز ہے اور شہریوں کا معیار زندگی بہتر کرنا ہے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'چین کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگتی ہے وہ یہ ہے کہ 30 برسوں میں انہوں نے 70 کروڑوں شہریوں کو غربت سے نکالا ہے جو انسانی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا اور میرا بھی یہی مقصد ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'چین نے لوگوں کو غربت سے نکالا اور میرے پاس چینی ماڈل نہیں ہے ورنہ ہم لوگوں کو غربت سے نکال سکتے تھے، جس طرح انہوں نے کرپشن کے خلاف کام کیا ہے بدقسمتی سے یہ میرے پاس نہیں ہے انہوں نے وزیروں کے برابر 450 افراد کو پانچ برس کے دوران کرپشن پر جیل بھیج دیا ہے، کاش میں اپنے ملک بھی کرپشن کے خلاف ایسا ہی کرسکتا'۔

چین میں کرپشن کے خلاف اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہم محدود ہیں لیکن ہمیں اس پر تعریف کرنا چاہیے'۔

'بھارت کی سمت درست نہیں'

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'میں بھارت کے عوام کو ٹوئٹر پر اپنے احساسات پہنچانے کی بہتر کوشش کرتا ہوں، میں بھارت کو جانتا ہوں اور مجھے بھارت سے پیار اور احترام ملا ہے جو کسی بھی پاکستانی سے زیادہ تھا'۔

مزید پڑھیں:'کشمیر میں کچھ ہوا تو بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے'

انہوں نے کہا کہ 'میں اس وقت بھارت کے لیے زیادہ پریشان ہوں یہاں تک کہ پاکستان سے زیادہ کیونکہ بھارت صحیح سمت نہیں جارہا ہے، بھارت میں گزشتہ 6 برسوں سے جو ہورہا ہے اس کو دیکھیں تو وہ خوف ناک ہے یہ گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں ہے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'بھارت میں ہندو سپریمیسی کا نظریہ غالب آگیا ہے، جب دوسروں سے نفرت کرنے کا نظریہ غالب آتا ہے تو برا ہوتا اسی نظریے نے گاندھی کو قتل کیا، اسی نظریے پر بھارت میں تین مرتبہ پابندی لگی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اب بدقسمتی سے یہ نظریہ بھارت کو چلا رہا ہے اور میں پریشان ہوں اور دو جوہری طاقتوں کو پریشان ہونا چاہیے اسی لیے میں نے وزیراعظم بورس جانسن سے بات کی اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت دیگر سربراہان مملکت سے بات کروں گا'۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024