منشیات کیس: رانا ثنا اللہ کی درخواست ضمانت مسترد
لاہور کی مقامی عدالت نے منشیات کیس میں گرفتار مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن اسمبلی رانا ثنااللہ کی درخواست ضمانت مسترد کردی لیکن عدالت نے اسی کیس میں دیگر 5 شریک ملزمان کی ضمانت کو منظور کرلی۔
انسداد منشیات کی عدالت میں ڈیوٹی جج خالد بشیر نے رانا ثنا اللہ و شریک ملزمان کی ضمانت سے متعلق درخواستوں پر سماعت کی، اس دوران مسلم لیگ (ن) کے رہنما کی جانب سے ایڈووکیٹ فریہاد علی شاہ اور زاہد حسین بخاری نے دلائل دیے۔
دوران سماعت رانا ثنا اللہ کے وکیل نے کہا کہ 3 گھنٹے کی تاخیر سے ان کے موکل کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی گئی جبکہ رانا ثنا اللہ اپنے سیکیورٹی اسٹاف کے ہمراہ لاہور کا سفر کررہے تھے۔
وکیل نے کہا کہ گرفتاری کی جگہ سے تھانے تک کا سفر 20 منٹ کا ہے لیکن ایف آئی آر 3 گھنٹے بعد درج کی گئی، رانا ثنا اللہ کی گاڑی بلٹ پروف تھی اور اسے باہر سے نہیں کھولا جا سکتا تھا، جس کے بعد اس گاڑی کو رانا ثنا اللہ کے کہنے پر اندر سے کھولا گیا۔
عدالت میں دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف سیاسی کیس بنایا گیا کیونکہ وہ پنجاب کی بڑی سیاسی شخصت ہیں، ان کے موکل نے اپنی گرفتاری سے قبل ہی کہہ دیا تھا کہ انہیں کسی جھوٹے کیس میں گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ویسا ہی ہوا۔
مزید پڑھیں: رانا ثنااللہ کو گھر کے کھانے کی فراہمی کا فیصلہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو کرنے کا حکم
بات کو جاری رکھتے ہوئے وکیل نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے کیس میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے کیونکہ مقدمے کے اندراج میں 3 گھنٹے کی تاخیر مقدمے کو مشکوک کر رہی ہے اور یہ کیا مذاق کی بات ہے کہ اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) والے کہتے ہیں کہ رانا ثنا اللہ نے خود کہا کہ یہ لیں سوٹ کیس اس میں ہیروئن ہے۔
اس دوران وکیل نے استدعا کی کہ جب تک معاملے کی مکمل تحقیق نہیں ہو جاتی رانا ثنا اللہ کی ضمانت دی جائے کیونکہ اے این ایف کی کہانی بونگی اور بوگس ہے۔
دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ کیس 4 لوگوں کے گرد گھوم رہا ہے، شکایت کنندہ ہی جو تفتیش بھی کررہا ہے یہ غیر قانونی ہے۔
انہوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کے بعد ایک وزیر اور ڈی جی اے این ایف کو پریس کانفرنس کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ شہر یار آفریدی نے کہا تھا کہ ہم رانا ثنا اللہ کا پیچھا کر رہے تھے، ان کے اہل خانہ ساتھ ہوتے تھے، اس لیے انہیں پہلے گرفتار نہیں کیا گیا۔
وکیل نے کہا کہ میرے پاس اگر اختیار ہو تو میں 5 منٹ میں شہریار آفریدی کو گرفتار کرا دوں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی موقف اپنایا کہ اے این ایف کے پاس رانا ثنا اللہ کی گرفتاری کی فوٹیج نہیں لہٰذا انہیں جیل میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں۔
عدالت میں وکیل نے بتایا کہ رانا ثنا اللہ بیمار ہیں، انہیں سانس کی اور دیگر بیماریاں بھی لاحق ہیں، ان کے موکل کو ڈیتھ سیل میں رکھا ہوا ہے، نیچے لٹایا ہوا ہے جبکہ گھر کا کھانا نہیں دے رہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اے این ایف کے مطابق رانا ثنا اللہ پورا گروہ چلا رہے تھے تو اگر ایسا تھا تو ان کا ریمانڈ کیوں نہیں لیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی حوالہ دیا کہ ڈان نیوز پر مہر بخاری کے پروگرام میں رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کا کیس نظام کے منہ پر طمانچہ ہے، باہر پکوڑے والا بھی کہہ رہا ہے کہ یہ کیس جھوٹا ہے۔
اس موقع پر رانا ثنا کے وکلا کے دلائل کے بعد اے این ایف کے وکیل نے دلائل دیے اور کہا کہ ان دلائل میں وکلا نے ساری سیاسی باتیں کی ہیں، لگ رہا تھا عدالتی کارروائی نہیں کوئی جلسہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کیس کے 14 میموز ہیں اس کو لکھنے میں ایک گھنٹے سے زائد کا وقت لگتا ہے، مقدمے کے اندراج میں تاخیر والی بات درست نہیں۔
وکیل نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کے گارڈز نے گرفتاری کے وقت کہا کہ تم لوگ جانتے نہیں ہو کہ تم کس پر ہاتھ ڈال رہے ہو، ہم ایک ایک سیکنڈ کا حساب دے سکتے ہیں، موقع پر ملزم نے ہیروئن کے لفافے کی نشاندہی کی۔
یہ بھی پڑھیں: رانا ثنااللہ کو جیل میں گھر کا کھانا دینے کی درخواست مسترد
اے این ایف کے وکیل نے موقف اپنایا کہ رانا ثنا اللہ کو پکڑا تو وہاں ہاتھا پائی شروع کر دی گئی، جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی اور ملازمین نے اہلکاروں پر اسلحہ تان لیا لیکن ہم نے پیشہ ورانہ طور پر اس معاملے کو دیکھا جس کی وجہ سے ایک بھی گولی نہیں چلی۔
اس موقع پر انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پلاسٹک کے لفافے میں ہیروئن تھی، اس لڑائی کے دوران وہ پھٹ بھی سکتا تھا۔
رانا ثنااللہ کی گرفتاری
یاد رہے کہ رانا ثنا اللہ کو اینٹی نارکوٹکس فورس نے یکم جولائی 2019 کو گرفتار کیا تھا۔
اے این ایف نے مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد-لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔
ترجمان اے این ایف ریاض سومرو نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنا اللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے پیچھے وزیراعظم عمران خان کے ہونے کا الزام لگایا تھا۔
بعد ازاں عدالت نے اے این ایف کی درخواست پر رانا ثنا اللہ کو ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ گھر کے کھانے کی استدعا مسترد کردی تھی۔