انڈونیشیا: غیر ازدواجی تعلقات و ہم جنس پرستی پر سزاؤں کا نیا قانون تیار
دنیا میں مسلم آبادی کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا نے رواں ماہ 18 ستمبر کو لڑکیوں کی شادی کے لیے نیا قانون منظور کیا تھا۔
نئے قانون کے تحت اب انڈونیشیائی لڑکیوں کے لیے شادی کی کم سے کم عمر 19 برس ہوگی، اس سے قبل یہ عمر 16 برس تھی، تاہم اگر والدین اور لڑکی راضی ہوں تو 16 سال سے پہلے بھی شادی کی جا سکتی تھی۔
لڑکیوں کی شادی کی عمر کے بڑھانے کے نئے قانون کو سماجی تنظیموں اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے سراہا تھا اور امید ظاہر کی تھی کہ نئے قانون سے کم عمری کی شادیاں روکی جا سکیں گی۔
لڑکیوں کی شادی کے نئے قانون کی منظوری کے بعد انڈونیشیا جلد ہی ایک اور نیا قانون منظور کرنے جا رہا ہے اور اس نئے قانون کو سماجی تنظیمیں تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق انڈونیشیا کی سیاسی جماعتیں اور حکومتی ارکان قانون میں ترمیم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں اور جلد ہی تیار کیے گئے نئے قانونی بل کی منظوری کے لیے اسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
نئے فوجداری قانون کے بل میں شادی سے قبل لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان جنسی تعلقات استوار کرنے، شادی کے بعد کسی نا محرم سے ازدواجی تعلقات قائم کرنے اور ہم جنس پرستی کو ممنوع قرار دینے سمیت ملک کے صدر اور نائب صدر کی توہین کرنے پر سزاؤں اور جرمانے عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
علاوہ ازیں نئے ترمیمی بل میں توہین مذہب پر بھی سزاؤں اور جرمانے کی تجاویز دی گئی ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ اس نئے قانون کو بھی انتقامی سیاست کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
رائٹرز کے مطابق زیادہ تر سماجی تنظیموں کا خیال ہے کہ نیا قانونی بل آئندہ ہفتے اسمبلی سے پاس ہوجائے گا کیوں کہ انڈونیشیا کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس بل کے مسودے سے حکومت سے اتفاق کر چکی ہیں۔
نئے بل کے مسودے کو اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے بھی حکومت نے منظوری دے دی ہے اور امکان ہے کہ نئے بل کو 24 ستمبر کو اسمبلی سے منطور کروالیا جائے گا۔
اگر بل پاس ہوگیا تو انڈونیشیا میں شادی کے بغیر جنسی تعلقات استوار کرنے والے مرد و خواتین کو 6 ماہ قید اور جرمانے کی سزا یا پھر دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔
قانون کے تحت شادی کے بغیر جنسی تعلقات استوار کرنے والے افراد کے خلاف خاندان کے کسی فرد کی شکایت لازمی نہیں ہوگی بلکہ محلے یا گاؤں کا کوئی بھی معزز شخص ایسے جوڑے کے خلاف شکایت کرسکتا ہے اور معزز شخص کی شکایت پر ہی جوڑے کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
اسی طرح بل پاس ہوجانے کے بعد شادی کے بعد کسی نا محرم سے جنسی تعلقات استوار کرنے والے مرد و خواتین کو ایک سال قید کی سزا سنائی جا سکے گی، تاہم ایسا کرنے والے افراد کے خلاف اس وقت ہی کارروائی کی جا سکے گی جب متاثرہ خاندان کا کوئی فرد پولیس کو شکایت کرے گا۔
نئے بل کے تحت ہم جنس پرستی کے خلاف بھی سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں، انڈونیشیا میں پہلے ہی ہم جنس پرستی ممنوع ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
تیار کیے گئے نئے قانونی مسودے میں ملک کے صدر و نائب صدر کی توہین کرنے والے افراد کے خلاف بھی قید اور جرمانے کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں جب کہ نئے بل کے تحت توہین مذہب کی سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بیشتر تنظیموں کے مطابق اگرچہ نئے قانون سے انڈونیشیا سے 100 سالہ پرانے قوانین ختم ہوں گے لیکن نئے قانون کو سیاسی انتقامی کارروائی کے طور پر استعمال کیے جانے کے خدشات موجود ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے توہین مذہب، صدر کی توہین، ہم جنس پرستی اور شادی سے قبل جنسی تعلقات سے متعلق تجویز کی گئی سزاؤں پر سخت رد عمل دیا اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔