• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

سی پیک معاہدہ: کیا چینی پاکستان سے مایوس ہورہے ہیں؟

شائع September 17, 2019
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

ہم میں سے وہ لوگ جن کے مفادات حکومتی پالیسی سے جڑے ہیں یا پھر وہ افراد جو کئی برسوں سے پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد پر نظر رکھے ہوئے ہیں، انہیں تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہو ہی چلا تھا، مگر اب تو دیگر لوگوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے۔ لہٰذا جلد یا بدیر اس ملک کے اقتدار تو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوگی جو معاملات کو حقیقی معنوں میں سنبھالنا جانتے ہوں۔

گزشتہ ایک برس سے ہمیں پالیسی کے نام پر شعلہ فشاں خطابت، غیر زمینی، غیر حقیقی اور غیر منطقی تصورات ہی دیے گئے ہیں۔ ایک سال تک یہ خیال غالب رہا کہ پاکستان کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالے اور ایک کہاوت ہے ناکہ مچھلی اپنے سر سے سڑنا شروع ہوتی ہے (یعنی قیادت اچھی ہوگی تو ملک اچھا ہوگا) یوں نئی قیادت سے ملک میں نیچے تک پھیلی سڑن دُور ہوجائے گی اور تمام مسائل حل ہوجائیں گے۔

ایک سال سے اس یقین کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں صرف بُرے لوگوں کو ایک طرف کرنا ہے، لوگوں کو اچھائیوں کی دعوت دینی ہے، یوں خسارے ختم ہوجائیں گے اور گورننس کا پہیہ ایک بار پھر چلنے لگے لگا۔

ڈیم ٖفنڈ، پاکستان بناؤ سرٹیفکیٹ، وزیرِاعظم ہاٹ لائن اور موبائل ایپ پر مبنی شکایتی نظام اور بجٹ پیش کیے جانے کے بعد آدھی رات کو قوم سے کیے جانے والے خطاب کے پیچھے یہی سوچ کارفرما تھی جس میں مخالفین سے انتقام اور سخت سے سخت سزائیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ جذبات کی چاشنی اور اس میں لوگوں کے اذہان کو اچھی طرح گھما گھما کر جو کڑوا مشروب تیار ہوا ہے، وہی گزرا ہوا سال ہے۔

مگر اب یہ حالات بدل رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب کسی کو اوپر سے یہ اشارہ مل رہا ہے کہ معاملات ایسے نہیں سنبھالے جاتے۔ ملک خوبخود نہیں چلے گا، اور سچ یہ ہے کہ مچھلی سر سے نہیں بلکہ اندر سڑنا شروع ہوتی ہے۔ خیر ضرب المثال کا استعمال اب بہت ہوا۔

تو کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟ 2 باتیں: آئی ایم ایف پروگرام پر عمل درآمد کا آغاز ہوا اور ایک کے بعد ایک چین سے آنے والے مہمانوں کا گزر اسلام آباد سے ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے جو حکومت پر زور ڈال رہے ہیں کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام شروع کیا جائے، جو تاحال رکا ہوا ہے۔

چینی مہمان شہ سرخیوں میں سجائے جانے کا مٹیریل فی الحال نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح مختلف چینی وفود، جن میں سے کچھ کی سربراہی سینئر افسران کر رہے ہیں، کی جانب سے حکومت پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اور جس طرح حکومت کے مختلف حلقے بھی بار بار یہ اعلانات کررہے ہیں کہ حکومت سی پیک کے لیے پُرعزم ہے اور منصوبوں پر عمل درآمد تیز کردیا جائے گا، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی اہم معاملہ تو ضرور چل رہا ہے۔

ماضی میں احسن اقبال کے پاس رہنے والی وزارت برائے ترقی و منصوبہ بندی کے موجودہ ذمہ دار خسرو بختیار نے تو ایک موقعے پر بذاتِ خود یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے جامع سی پیک اتھارٹی تشکیل دینے کے لیے تیار ہے۔

ایسا ہی ایک اعلان چینی وزیرِ خارجہ وانگ ژی کے حالیہ دورہ اسلام آباد کے موقعے پر کیا گیا۔ چینی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان سی پیک کو لے کر پُرعزم ہے۔ انہوں نے ایک بار پھر سی پیک اتھارٹی کے قیام کے خیال پر زور دیا اور سی پیک منصوبوں پر ’عمل درآمد میں تیزی‘ کی اہمیت اجاگر کی اور یہ بتایا کہ ایک بار زیادہ سے زیادہ چینی کمپنیوں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا شروع کردی تو اس کے پاکستان کو کیا کچھ فوائد حاصل ہوں گے۔

اپنی نوعیت کا یہ کوئی پہلا اعلان نہیں ہے بلکہ اپریل میں جب عمران خان سالانہ بیلٹ اینڈ روڈ کانفرنس کے سلسلے میں بیجنگ گئے تھے تب سے لے کر آج تک وہ کئی بار اس قسم کے اعلانات کرچکے ہیں۔

مثلاً، کانفرنس کے دوران دونوں ملکوں کی حکومتوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کے تحت پلان شدہ 9 میں سے ایک راشاکئی خصوصی اقتصادی زون کی تعمیر کے حوالے سے رعایتی معاہدے پر دسختط کیے۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا اکنامک زونز ڈیولپمنٹ اینڈ منیجمنٹ کمپنی نے علان کیا کہ وزیرِاعظم جلد ہی خصوصی اقتصادی زون کے تعمیراتی کام کا افتتاح کریں گے۔

یہ اعلان مئی کے پہلے ہفتے میں کیا گیا تھا مگر اس کے بعد تعمیراتی کام کے افتتاح سے جڑی کسی تقریب کا کہیں کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ سی پیک کی ویب سائٹ پر صرف اتنا لکھا نظر آتا ہے کہ منصوبے کے لیے زمین حاصل کرلی گئی ہے۔

صرف راشاکئی منصوبے کا کام ہی تاخیر کا شکار نہیں بلکہ ایم ایل-1 ریلوے لائن کی اپ گریڈیشن کے منصوبے کی فنانسنگ میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ حتٰی کہ سی پیک پورٹ فولیو میں شامل تمام تر معاہدوں اور سمجھوتوں میں سے بمشکل ہی کسی پر کام آگے بڑھا ہے اور چینی اس بات کا نوٹس لے رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ اب کئی لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ سی پیک کے حوالے سے غیر معمولی تاخیر کیوں ہورہی ہے؟ کیا اس کی وجہ حکومت کی عدم دلچسپی تو نہیں؟ یا پھر اس کی وجہ نااہلی ہے؟ کیونکہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں میں جن لوگوں کو شامل کیا گیا ہے وہ کام کو پورا کرنے کی کچھ خاص متاثرکن صلاحیتیں نہیں رکھتے، کم از کم عوامی کاموں کے تناظر میں تو بالکل بھی نہیں، اور یہ بات پشاور کے بی آر ٹی منصوبے پر نظر دوڑانے پر ہی ثابت ہوجاتی ہے۔

تو کیا یہ اپنی ذہانت کا مظاہرہ کر رہے ہیں یا پھر نااہلی کا؟ اگر یہ ذہانت کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو پھر وزیرِاعظم کی طرف سے چند خاص اقدامات کے حوالے سے وعدے کرنا اور ان پر عمل کی تاریخیں دینا اور پھر ان پر عمل نہ کرپانا، کہاں کی عقلمندی ہوئی؟ اور اگر جواب نااہلی ہے تو یہ جی آئی ڈی سی ناکامی کی طرح دیگر شعبوں میں بھی صاف واضح دکھائی دیتی ہے، تو یہ سلسلہ بھی ظاہر ہے کہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔

آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ پورے کا پورے پروگرام ایک بھاری ریونیو ہدف اور غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر اکھٹا کرنے کے مشکل ہدف کی بنیاد پر کھڑا کیا گیا ہے۔ دیگر تمام معاملات ثانوی حیثیت کے ہیں۔

اس پروگرام پر عمل درآمد میں مسئلہ یہ ہے کہ یہ عوام کی جیبوں پر بھاری پڑتا ہے جس کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کی عوام میں مقبولیت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ بڑھتی قیمتوں، کم ہوتی ملازمتوں اور آمدن کے مواقع میں کمی کے خلاف شدید عوامی ردِعمل کا اقتدار میں شامل افراد کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگ ناپ تول کر جملے نہیں کہتے، مثلاً وہ یہ نہیں کہتے کہ ’خیر ہے یہ تو گزشتہ حکومت کا پیدا کردہ دباؤ ہے۔‘ بلکہ لوگ ایک دوسرے سے صرف یہ کہتے ہیں کہ، ’اقتدار میں جو لوگ پہلے تھے ان کے وقت میں حالات بہتر تھے۔‘ اور ان کا جملہ یہیں پر ہی ختم ہوجاتا ہے۔

اقتدار میں بیٹھے افراد کو اس قسم کی ساکھ کو پیدا کرنے والی سیاست کو سنبھالنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہے۔

موجودہ حکومت میں شامل افراد کے لیے سنگین چیلنج وہ صلاحیتیں ہیں جو اس قسم کے سیاسی فیصلوں کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ عملی میدان میں صلاحیتوں کے مظاہرے کا وقت اب آچکا ہے، اور اسی جگہ پر عظیم عمران خان پریشانی اور گھبراہٹ کا شکار نظر آتے ہیں، جس کا اندازہ ریڈ لیٹرز کے اجرا اور معیشت پر روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ملاقاتوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس چیلنج کو عبور کرنے کے لیے صرف شعلہ بیانی اور لفاظی کافی نہیں ہوگی۔


یہ مضمون 12 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

خرم حسین

صحافی ماہر معیشت اور کاروبار ہیں

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں۔ : khurramhusain@

ان کا ای میل ایڈریس ہے: [email protected]

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Sohail Sep 18, 2019 03:35am
Perfect analysis, IK government inept handling of the government matters is not hidden from the citizens of Pakistan

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024