• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

ہری پور: سرکاری اسکولوں کی طالبات کو عبایا پہننے کا حکم

شائع September 14, 2019
پولیس کی جانب سے طالبات کو ہر چوک یا نکڑ پر تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
پولیس کی جانب سے طالبات کو ہر چوک یا نکڑ پر تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

ہری پور ضلع میں محکمہ تعلیم کے افسران نے ہری پور کے تمام سرکاری اسکولوں میں طالبات کے لیے عبایا، گاؤن یا چادر پہننا لازمی قرار دے دیا، ان احکامات پر مقامی افراد کی جانب سے ملا جلا ردِ عمل سامنے آیا۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر (ڈی ای او) ثمینہ الطاف نے رواں ہفتے کے آغاز میں ایک سرکلر جاری کرتے ہوئے سرکاری اسکولوں کے تمام پرنسپلز اور ہیڈ مسٹریس کو ہدایت کی کہ طالبات کے عبایا، گاؤن یا چادر پہننے کو یقینی بنایا جائے۔

سرکلر میں کہا گیا کہ ’کسی غیر اخلاقی حادثے سے محفوظ رکھنے کے لیے تمام طالبات کو گاؤن، عبایا یا چادر کے ذریعے اپنے آپ کو ڈھانپنے کی ہدایت کی جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ’شریعت میں خواتین کے چہرے کا پردہ واجب نہیں‘

اس ضمن میں احکامات جاری کرنے والی متعلقہ افسر سے رابطہ کرنے کی بارہا کوشش کی گئی جو ناکام رہی تاہم ان کے ایک ماتحت نے اس بات کی تصدیق کی کہ سرکلر حقیقی ہے۔

ماتحت خاتون کا کہنا تھا کہ ’چھیڑ چھاڑ اور ہراسانی کی بڑھتی ہوئی شکایات سے طالبات کو محفوط رکھنے کے لیے یہ اقدام ضروری تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’طالبات کی بڑی تعداد میں دوپٹہ اور ’آدھی چادر‘ اوڑھنے کی عادت ہے جو ان کے جسموں کو ڈھانپنے کے لیے کافی نہیں‘۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کی جانب سے طالبات کو ہر چوک یا نکڑ پر تحفظ فراہم کرنا ممکن نہیں اس لیے انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ان کے ’تحفظ کے لیے مکمل پردہ ضروری قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: انتہائی پردہ دار یہودی خواتین میں تیزی سے اضافہ

مذکورہ حکم نامے پر ایک سماجی کارکن اور رواداری تحریک کے رہنما عمر فاروق نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’طالبات کا تحفظ یقینی بنانے کے بجائے حکام ان پر ان کی مرضی کےخلاف پہناوے کی پابندی لگا رہے ہیں‘۔

سماجی کارکان نے سماجی رویوں میں مرحلہ وار تبدیلی کی ضرورت اور طلبہ اور طالبات کو ایک دوسرے کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

تاہم دہم جماعت کی طالبہ کے والد محمد سہیل نے اس اقدام کی حمایت کی، ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ہراساں کرنے کے واقعات میں کمی آئے گی، حکومت کو یہ فیصلہ پہلے ہی کرلینا چاہیے تھا‘۔

دوسری جانب دو طالبات کے والدین نے بھی اس اقدام کو قابلِ تعریف قرار دیا۔


یہ خبر 14 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (4) بند ہیں

honorable Sep 14, 2019 09:06am
what says law? please implement it. do not touch cultural issues.
Murad Sep 14, 2019 09:15am
All Govt funded schools across the country should have same standard for uniform, (except for minor seasonal things like sweater/blazer). We're making states within a state to counter non-issues. The administration needs to deal with aggressors giving them harsh punishments instead of asking victims to do anything at all.
Mirza Sep 14, 2019 10:52am
Kesa sheher hay, kutta khulla chhora hay aur patthar ko baandh rakkha hay
ارسلان احمد Sep 14, 2019 07:54pm
دیر آید درست آید اللہ کرے پورے ملک کے محکمۂ تعلیم والوں کو انکے نقش قدم پر چلنے کی توفیق ملے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024