امریکی سینیٹرز کا ٹرمپ کو خط، پاک بھارت تنازع میں کردار ادا کرنے کا مطالبہ
واشنگٹن: امریکا کے نمایاں سینیٹرز اور اراکین کانگریس مسئلہ کشمیر اور پاکستان اور بھارت کے مابین دیگر تنازعوں کے حل کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تعمیری کردار ادا کرنے کامطالبہ کررہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو ارسال کردہ خط میں سینیٹر کرس وین ہولین، ٹوڈ ینگ، بین کارڈین اور لنزے گراہم نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کے الحاق کے بعد گرفتار افراد کی رہائی کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں۔
خط میں انہوں نے لکھا کہ ’ہم درخواست کرتے ہیں کہ آپ وزیراعظم نریندر مودی سے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد گرفتار کی گئی کشمیری قیادت کی رہائی، ٹیلی مواصلات اور انٹرنیٹ سروس کی مکمل بحالی اور محاصرہ اور کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کریں‘۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی قانون سازوں کا ڈونلڈ ٹرمپ سے کشمیر میں مداخلت کا مطالبہ
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح کے ایک دوسرے خط میں کانگریس کی بھارتی نژاد خاتون رکن پرمیلا جیاپال نے سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو سے مطالبہ کیا کہ بھارت پر کشمیر میں مواصلاتی رابطوں کی بندش ختم کرنے اور قید کیے گئے افراد کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔
سینیٹرز کی جانب سے صدر ٹرمپ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا کہ ’ہماری تحریر کا مقصد کشمیر کی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہے جو جمہوریت، انسانی حقوق اور خطے کے استحکام کے لیے خطرناک ہے‘۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ’جہاں ہم آپ کے اس مقصد کی حمایت کرتے ہیں کہ فریقین کے ساتھ مل کر کشمیر کی حیثیت کا طویل مدتی حل نکالا جائے ، وہیں ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ وہاں جاری انسانی بحران کے خاتمے کے لیے فوری کردار ادا کیا جائے‘۔
مزید پڑھیں: ’مقبوضہ کشمیر قبرستان کی مانند خاموش ہے‘
خط میں دستخط کرنے والوں میں صدر ٹرمپ کے قریبی مشیر برائے جنوبی ایشیائی امور سینیٹر لنزے گراہم وار کراچی میں پیدا ہونے والے سینیٹر وین ہولین بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکی صدر کو ان کی 22 جولائی کی بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر تنازع پر ثالثی کی پیشکش یاد دلائی۔
سینیٹرز نے اپنے خط میں اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ 5 اگست کو بھارتی حکومت نے ’جموں کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی دفعہ 370 کو یک طرفہ طور پر ختم کیا‘۔
خط میں ذکر کیا گیا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے قبل بھارت نے وادی میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو تعینات کیا، رہائشیوں پر کرفیو نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ علاقے میں فون اور انٹرنیٹ سمیت مواصلاتی رابطے منقطع کردیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اقدامات پر گہری تشویش ہے، سربراہ انسانی حقوق اقوام متحدہ
چاروں سینیٹرز نے امریکی صدر کو کشمیر تنازع کے حل میں کردار ادا کرنے وجہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ فوری طور پر انسانی صورتحال پر توجہ دی جائے، ہمیں امید ہے کہ امریکا 2 جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کرسکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری
بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔