صدر مملکت نے خلاف ضابطہ 2 اراکین کا تقرر کیا، الیکشن کمیشن کا عدالت میں جواب
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے دو اراکین کی خلاف ضابطہ تقرری کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب داخل کراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ صدر مملکت عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 213 کی خلاف ورزی اور پارلیمانی کمیٹی کو نظرانداز کرتے ہوئے کمیشن کے دو اراکین خالد محمود صدیقی اور منیر احمدخان کاکڑ کی تعیناتی کی۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ صدر مملکت عارف علوی نے خالد محمود صدیقی اور منیر احمد خان کاکڑ کو بالترتیب سندھ اور بلوچستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا رکن تعینات کردیا تھا۔
مزید پڑھیں: اپوزیشن کی تنقید نظر انداز، صدر نے 2 نئے ای سی پی اراکین کا تقرر کردیا
تاہم اگلے ہی روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے صدر عارف علوی کی جانب سے تقرر کردہ الیکشن کمیشن اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ان 2 اراکین کی تعیناتی کو آئین میں اراکین کی تقرری کے لیے درج آرٹیکل 213 اور 214 کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سینئر وکیل جہانگیر خان جدون کی درخواست پر سماعت کی جس میں الیکشن کمیشن کے دو اراکین کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جواب داخل کرتے ہوئے موقف اختیار کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر نے دونوں اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا اور حلف کے بغیر یہ اراکین کام نہیں کر سکتے لہٰذا انہیں الیکشن کمیشن کے رکن کے طور پر تعینات تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف الیکشن کمشنر کا صدر مملکت کے مقرر کردہ اراکین سے حلف لینے سے انکار
اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں مزید کہا گیا کہ الیکشن کمیشن آزاد اور خود مختار آئینی ادارہ ہے جس کا الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی میں کوئی کردار نہیں اور الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کا طریقہ آئین کے آرٹیکل 213 میں درج ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کے دو ارکان خالد محمود صدیقی اور منیر احمد خان کاکڑ کی تعیناتی آئین میں درج طریقہ کار کے تحت نہیں کی اور چیف الیکشن کمشنر نے خلاف ضابطہ تعیناتی کے باعث دونوں اراکین سے حلف لینے سے انکار کیا۔
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ صدر کے سیکریٹری اور وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری سمیت وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے جواب داخل نہیں کرایا گیا۔
مزید پڑھیں: ’وزیر اعظم مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن اراکین کا انتخاب چاہتے ہیں‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے فریقین کی جانب سے آئندہ 10 روز میں جواب جمع کرانے کی یقین دہانی کرائی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا الیکشن کمیشن کے ارکان کی تعیناتی کے لیے آئینی حدود کو مدنظر رکھا گیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ارجنٹ معاملہ ہے لہٰذا جلدی جواب جمع کرائیں، کیا آپ نہیں چاہتے کہ الیکشن کمیشن فعال ہو؟
عدالت نے فریقین کی جانب سے جواب طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 11 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ 22 اگست کو صدر مملکت عارف علوی نے خالد محمود صدیقی اور منیر احمد خان کاکڑ کو بالترتیب سندھ اور بلوچستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا رکن تعینات کردیا تھا۔
تاہم اگلے ہی روز چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا نے صدر عارف علوی کی جانب سے تقرر کردہ الیکشن کمیشن کے 2 اراکین سے حلف لینے سے انکار کردیا تھا۔
چیف الیکشن کمشنر نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ان 2 اراکین کی تعیناتی کو آئین میں اراکین کی تقرری کے لیے درج آرٹیکل 213 اور 214 کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے سندھ اور بلوچستان کے اراکین عبدالغفار سومرو اور جسٹس (ر) شکیل بلوچ رواں سال جنوری میں ریٹائر ہو گئے تھے اور قانون کے تحت ان 2 عہدوں کے لیے جگہ کو 45 دنوں میں پُر کرنا ہوتا ہے۔
تاہم وزیر اعظم عمران خان اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کے درمیان اختلاف کے سبب ان 2 عہدوں پر تقرری کی مدت مارچ میں گزر گئی تھی، جس کے بعد عمران خان نے ان عہدوں کے لیے 3، 3 نام شہباز شریف کو بھیج دیے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں فریق کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار رہا تھا، جس کے بعد صدر مملکت کی جانب سے تقرریاں سامنے آئیں تھیں۔