محرم الحرام کے پیشِ نظر مقبوضہ کشمیر کے محاصرے میں مزید سختی
سری نگر: ایک ماہ سے زائد لاک ڈاؤن کا شکار مقبوضہ کشمیر میں پابندی کو توڑتے ہوئے اہلِ تشیع مکتبہ فکر کی جانب سے محرم الحرام کا جلوس نکالنے پر حکام نے سیکیورٹی مزید سخت کردی۔
یاد رہے کہ نئی دہلی کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کشمیر میں فوجی محاصرہ نافذ کردیا گیا تھا جو اب تک جاری ہے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اتوار کے روز چند ایک مقامات پر موبائل فون اور انٹرنیٹ نیٹ ورک کے سگلنز پائے گئے تاہم پوری وادی میں اب تک ہر قسم کی مواصلات بند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے مکینوں کو ایک ماہ سے بھارتی پابندیوں اور کرفیو کا سامنا
اس سلسلے میں پولیس نے صبح سویرے ہی شہر کے مختلف علاقوں میں اعلانات کرنا شروع کردیے تھے جس میں شہریوں کو گھروں سے نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی تھی اور خلاف ورزی کی صورت میں سخت کارروائی کا عندیہ دیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد دنیا بھر میں محرم کے مہینے میں مجالس کرتے اور جلوس نکالتے ہیں۔
تاہم مقبوضہ کشمیر میں 1989 میں نئی دہلی حکومت کے خلاف اٹھنے والی مسلح تحریک کے بعد سے اس قسم کے زیادہ تر جلوسوں پر پابندی عائد کردی گئی تھی جس کا جواز یہ دیا گیا تھا کہ مذہبی جلوسوں کو بھارت مخالف جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی درد بھری داستانیں سامنے آنے لگیں
وادی میں موجود نامہ نگاروں نے اتوار کے روز 2 احتجاج ہوتے ہوئے دیکھے لیکن شیعہ مظاہرین کو پولیس فوری طور پر گرفتار کر کے لے گئی اس کے علاوہ عزاداروں کو چھڑیوں سے مارا بھی جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے 6 مزید مقامات پر اسی طرح کے مظاہرے ہوتے ہوئے دیکھے۔
اس سے قبل ہفتے کے روز 4 مقامی صحافی ایک احتجاجی مظاہرے کی کوریج کرنے میں زخمی ہوگئے جس میں 5 ہزار افراد شریک ہوئے، مذکورہ احتجاج کشمیر میں لاک ڈاؤن کے بعد ہونے والا اسب سے بڑا اجتماع تھا۔
ایک صحافی نے بتایا کہ اس کے کیمرے کا لینس ٹوٹ گیا جبکہ ایک صحافی پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا جس کے نشانات اس کے جسم پر واضح تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: کرفیو کے خاتمے کیلئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ہنگامی مہم کا آغاز
خیال رہے کہ حکام نے حالیہ دنوں میں سری نگر کے کچھ مقامات پر کچھ پابندیوں میں نرمی کردی تھی لیکن جمعے کے روز سے ان میں دوبارہ سختی کردی گئی۔
اس بارے میں ایک صحافی کا کہنا تھا کہ اتوار کا محاصرہ 5 اگست کے بعد سے اب تک کا سب سے سخت محاصرہ تھا کیوں کہ جہاں پہلے رکاوٹوں پر 3 اہلکار تک تعینات ہوتے تھے اب وہاں 10 اہلکار موجود تھے۔
اس کے علاوہ اس بات کی بھی توقع ہے کہ بھارتی حکومت ان پابندیوں میں عاشورہ کے روز یعنی منگل کو مزید سختی کردے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کرسکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔