شیخوپورہ: تشدد کا نشانہ بننے والی لیڈی کانسٹیبل کا استعفیٰ دینےکا فیصلہ
شیخوپورہ میں مرد وکیل کے 'تشدد' کا نشانہ بننے والی لیڈی پولیس کانسٹیبل نے ’انصاف نہ ملنے کی امید‘ اور ’غیرمعمولی ذہنی دباؤ‘ کے پیش نظر ملازمت سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔
خیال رہے کہ شیخوپورہ کی تحصیل فیروزوالا کی کچہری میں ایک وکیل احمد مختار نے خاتون کانسٹیبل فائزہ کے ساتھ بد تمیزی کی تھی اورانہیں تھپڑ مارا تھا۔
مزیدپڑھیں: لیڈی پولیس کانسٹیبل نے ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب کی کہانی جھوٹی قرار دے دی
بعدازاں خاتون کانسٹیبل فائزہ نے بتایا تھا کہ شک کی بنیاد پر آیف آئی آر ختم کردی گئی اور عدالت نے ملزم احمد مختار کو بری کردیا۔
خاتون کانسیٹبل کی جانب سے تازہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جس میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے پولیس فورس میں شمولیت خدمت کے تحت کی تاہم ایک طاقت کے نشے میں چور وکیل نے مجھے تھپڑ مارا‘۔
فائزہ نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ذہنی ٹارچر کیا جارہا ہےاور انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں نظر آتی۔
خاتون کانسٹیبل نے انکشاف کیا کہ ’مجھ پر شدید دباؤ ہے اور مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں خود کشی کرلوں یا کہاں جاؤں‘۔
انہوں نے کہا کہ میں ’مافیا‘ کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔
یہ بھی پڑھیں: 'پولیس اہلکار دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈکیتیاں کرتے ہیں'
ان کا کہنا تھا کہ شید ذہنی دباؤ کی وجہ سےمحکمہ پولیس سے استعفی دے رہی ہوں۔
ملزم احمد مختار کی بریت کے بعد پنجاب حکومت کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے ایک ٹوئٹر صارف کی تنقید پر جواب دیا کہ ایف آئی آر میں نام ٹھیک بھی ہوتا تو کیا اس کیس میں ایک وکیل کی ضمانت نہیں ہوتی؟
انہوں نے کہا کہ ’ہر بات کو حکومت پر ڈال دینا بھی مناسب نہیں۔ کل ایف آئی آر کی غلطی درست کروا دیں گے لیکن اب عدالتوں کو تو آزدانہ کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا‘۔
اس سے قبل لیڈی کانسٹیبل کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے درخواست جمع کروائی تو سب انسپکٹر نے ایف آر درج کرتے ہوئے ایک جگہ احمد مختار کی جگہ احمد افتخار نام لکھ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں پولیس گردی کا واقعہ، نوجوان پر تشدد میں ملوث اہلکار معطل
خاتون کانسٹیبل نے سوال اٹھایا کہ کیا اس ملک میں عورت کی یہی عزت ہے کہ اسے کوئی بھی شخص سر عام آکر تھپڑ مارے اور پھر بری بھی ہوجائے؟