امریکا کا پاک-بھارت براہ راست مذاکرات پر زور
واشنگٹن: امریکا نے مسلمان تنظیم کے ایک گروہ کو بتایا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر سمیت دیگر امور پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی کونسل آف مسلم آرگنائزیشن (یو ایس سی ایم او) کے وفد نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے امور پاکستان ارون مسنگا سے رواں ہفتے واشنگٹن میں ملاقات کی اور انہیں بھارت کے 5 اگست کے فیصلے پر مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والی صورتحال پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے امریکا سے جنوبی ایشیا میں 2 جوہری ریاستوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے بھی زور دیا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: لینڈلائن سروس کی بحالی کے دعوے، رابطوں میں مشکلات کی شکایات
جمعے کے روز جاری ہونے والی ٹوئٹ میں امریکا کے نگراں اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ الیس جی ویلز کا کہنا تھا کہ ارون مسنگا نے مسلمانوں کے وفد کو امریکی موقف سے آگاہ کیا اور کہا کہ واشنگٹن پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلے کا پر امن حل نکالنے پر زور دیا رہے گا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات 5 اگست کے بعد مزید خراب ہوئے جب نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔
پاکستان نے بھارتی اقدام کی سختی سے مذمت کی تھی۔
امریکا، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے تاہم وہ بھارت کے پاکستان کے ساتھ تنازع پر اس کے رویے کو درست کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فرانس میں نریندر مودی کے ہمراہ حالیہ پریس کانفرنس میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ 'پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی باہمی تنازعات ہیں'۔
اس موقع پر کشمیر تنازع پر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کا کردار ادا کرنے کے سوال پر نریندر مودی کا کہنا تھا کہ 'ہم کسی تیسرے ملک کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے، ہم خود بھی بحث کرسکتے ہیں اور ان امور کو باہمی طور پر حل کرسکتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان 1947 سے قبل ایک ساتھ تھے اور مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر اپنے مسائل پر بات کرسکتے ہیں اور انہیں حل کرسکتے ہیں'۔
تاہم بھارت پاکستان سے باہمی مذاکرات سے یہ کہہ کر انکار کرتا رہا ہے کہ جب تک بھارت میں دہشت گردانہ حملے جاری ہیں مذاکرات نہیں ہوسکتے۔
پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کو نئی دہلی نے مسترد کیا ہے۔
اسلام آباد کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ حملے مقامی افراد نے کیے تاہم بھارت نے بغیر شواہد فراہم کیے ان کے بیان کو مسترد کردیا تھا۔
حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان اور دیگر سینئر پاکستانی حکام نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارت صورتحال کو مزید خراب کرنے کے لیے جھوٹی دہشت گردی کا الزام عائد کرسکتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
بھارت کو اس اقدام کے بعد نہ صرف دنیا بھر سے بلکہ خود بھارتی سیاست دانوں اور اپوزیشن جماعت کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت نے 5 اگست کے اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل ہی مقبوضہ وادی میں مکمل لاک ڈاؤن اور کرفیو لگا دیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی منقطع کردیے تھے جو ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی تاحال معطل ہیں۔