بھارت: سپریم کورٹ نے بیٹی کو محبوبہ مفتی سے ملاقات کی اجازت دے دی
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی ثنا التجا جاوید کو ان کی والدہ سے ملاقات کے لیے سری نگر جانے کی اجازت دے دی۔
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی سپریم کورٹ میں محبوبہ مفتی کی صاحبزادی کی جانب سے والدہ سے ملاقات سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ محبوبہ مفتی کے خاندان کے دیگر افراد ان سے 2 مرتبہ ملاقات کرچکے ہیں اور التجا جاوید بھی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے اجازت طلب کرکے والدہ سے ملاقات کرسکتی ہیں۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ محبوبہ مفتی کی والدہ اور بہن ان سے 2 مرتبہ مل چکی ہیں جس پر سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ ان درخواستوں کا مقصد کچھ اور ہے۔
مزید پڑھیں: 'بھارت، محبوبہ مفتی کو گرفتار کرکے ان کا حوصلہ توڑنا چاہتا ہے'
التجا جاوید کی وکیل نتیا رما کرشن نے کہا کہ 22 اگست تک التجا کے گھر سے نکلنے پر بھی پابندی عائد تھی لہذا انہیں مقبوضہ ریاست چھوڑنی پڑی۔
جس پر بھارت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے پوچھا کہ کیا وجہ تھی جس کے باعث التجا چنائی سے سری نگر نہیں گئیں اس پر وکیل نتیا رما کرشن نے بتایا کہ 5 اگست سے 22 اگست تک انہیں ملنے والی دھمکیوں کی وجہ سے وہ نہیں گئیں۔
وکیل نے کہا کہ التجا جاوید نے بتایا کہ ’مجھے گھر سے باہر نکلنے یا والدہ سے ملنے کی اجازت نہیں تھی‘۔
بھارتی چیف جسٹس نے پوچھا کہ ’سری نگر جانے میں کوئی مشکل نہیں ہے؟ گھر سے باہر نکلنے اور والدہ سے ملاقات میں مشکلات کا سامنا ہے؟‘
یہ بھی پڑھیں: ’کشمیری جانوروں کی طرح پنجرے میں قید اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں‘
وکیل نے بتایا کہ التجا کو چنائی جانے کی اجازت دی گئی، ثنا التجا جاوید نے بتایا تھا کہ ’میں جب سری نگر میں تھی تو مقبوضہ جموں و کشمیر کے حکام نے گھر سے باہر آنے اور والدہ سے ملاقات کی اجازت نہیں دی تھی‘۔
بھارتی چیف جسٹس نے سالیسیٹر جنرل سے پوچھا کہ ’التجا جاوید کے سری نگر کا سفر کرنے اور اپنے گھر جانے میں کیا اعتراض ہے جس پر تشار مہتا نے کہا کہ اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں اٹھانے پر اعتراض ہے۔
تشار مہتا نے الزام عائد کیا کہ درخواست کو ثنا التجا کی جانب سے غلط طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔
اس پر بھارتی چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اجازت دیتے ہیں کہ ثنا التجا جاوید سری نگر میں نقل و حرکت اور والدہ سے ملاقات کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو بھارت کے صدر رام ناتھ کووند نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہو گئی تھی۔
بعدازاں 6 اگست کو بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد گرفتار کرلیا تھا۔
اس سے قبل مقبوضہ کشمیر کی بگڑتی صورتحال کے بعد محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو نظر بند کیا گیا تھا، بعد ازاں انہیں باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
6 اگست کو جاری کیے گیے بیان میں ثنا التجا جاوید نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے ان کی والدہ کو گرفتار کر کے ان کے حوصلے پست کرنے کی کوشش کی۔
بعدازاں محبوبہ مفتی کی صاحبزادی نے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام لکھے گئے خط میں کہا تھا کہ ’کشمیری جانوروں کی طرح پنجرے میں قید ہیں اور وہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں‘۔
ثنا التجا جاوید نے کہا تھا کہ انہیں گھر سے باہر قدم نکالنے کی اجازت نہیں، انہوں نے اپنی مبینہ گرفتاری سے متعلق وضاحت بھی مانگی تھی۔
میڈیا میں جاری کیے گئے خط میں انہوں نے کہا تھا کہ ’بدقسمتی سے کچھ وجوہات کی بنیاد پر، جن سے متعلق آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں، میں بھی اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہوں، یہاں تک کہ ہمیں آگاہ نہیں کیا جاتا اور ملاقاتیوں کو دروازے سے ہی واپس بھیج دیا جاتا ہے‘۔