• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے 3 مجرموں کو عمر قید کی سزا

شائع September 5, 2019
جن مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، ان میں مقتول لڑکیوں کے رشتہ دار عمر خان، صابر اور سعیر شامل ہیں — فائل فوٹو/ ڈان نیوز اسکرین شاٹ
جن مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، ان میں مقتول لڑکیوں کے رشتہ دار عمر خان، صابر اور سعیر شامل ہیں — فائل فوٹو/ ڈان نیوز اسکرین شاٹ

پشاور کے سیشن جج نے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 لڑکیوں اور 2 لڑکوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے 3 مجرموں کو عمر قید کی سزا سنادی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سیف اللہ جان نے کوہستال ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 5 ملزمان کو بری کردیا، اس موقع پر عدالت میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

عدالت کی جانب سے جن مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، ان میں مقتول لڑکیوں کے رشتہ دار عمر خان، صابر اور سعیر شامل ہیں۔

جن مجرموں کو سزا سنائی گئی ہے ان میں عمر ایک مقتولہ کے بھائی جب کے دیگر دو مجرم دیگر دو مقتول لڑکیوں کے والد ہیں۔

خیال رہے کہ ملزمان کو گزشتہ سال مانسہرہ پولیس نے گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایبٹ آباد: کوہستان ویڈیو اسکینڈل کو منظر عام پر لانے والا شخص قتل

وکیل صبور خان نے بتایا کہ سزا پانے والے تینوں مجرمان نے عدالت کے سامنے اقبال جرم کیا تھا۔

بعد ازاں افضل کوہستانی کے بھائی کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

علاوہ ازیں کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس سے متعلق بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں شامل ایس ایچ او حفیظ الرحمٰن نے بتایا کہ اس کیس میں 3 لڑکیاں قتل کی گئی تھیں جبکہ 2 لڑکیاں زندہ ہیں جنہیں عدالت میں ٹرائل کے دوران پیش بھی کیا گیا تھا۔

انہوں نے ڈان نیوز کو بتایا کہ دوران تفتیش یہ بات سامنے آئی تھی کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکیوں میں سے 2 لڑکیاں شاہین بی بی اور آمنہ زندہ ہیں، جنہوں نے بعد ازاں عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان بھی ریکارڈ کرایا تھا۔

دوسری جانب افضل کوہستانی کے بھائی نے پولیس افسر کی بات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ویڈیو میں نظر آنے والی تمام 5 لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں کوہستان ویڈیو اسکینڈل کو منظر عام پر لانے والے مرکزی کردار افضل کوہستانی کو ایبٹ آباد میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

افضل کوہستانی کو ابیٹ آباد کے سربان چوک پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔

عینی شاہدین کے مطابق افضل کوہستانی کو متعدد گولیاں لگیں تھیں، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئے تھے جبکہ واقعے میں 3 راہ گیر زخمی بھی ہوئے تھے۔

اسی ماہ سول سوسائٹی کے انسانی حقوق کے کارکنوں اور رضاکاروں نے 2012 کے کوہستان ویڈیو اسکینڈل کی جوڈیشل انکوائری کی تجویز پیش کی تھی جہاں اس واقعے میں 5 لڑکیوں سمیت 8 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان اسکینڈل کیس: مدعی پر 3 بچوں کو جلاکر قتل کرنے کا الزام

بعد ازاں اپریل میں کوہستان ویڈیو اسکینڈل سامنے لانے والے مقتول افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے اپنے بھائی کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔

پشاور پریس کلب میں افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ افضل نے کئی برسوں تک فرسودہ نظام اور اس کے رواج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ہمارے 4 بھائیوں کو قتل کیا گیا، ہمارا پورا گھرانہ خوف میں رہ رہا ہے اور گزشتہ 10 برسوں میں اسی خوف کی وجہ سے 3 مرتبہ اسلام آباد جانا پڑا تھا۔

واضح رہے کہ جنوری 2013 میں بن یاسر کے 3 دیگر بھائیوں شاہ فیصل، شیر ولی اور رفیع الدین کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا۔

اس سے قبل جون 2017 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں نامعلوم افراد نے ایک مکان کو نذر آتش کردیا جس کے نتیجے میں دو نومولود سمیت 3 بچے جل کر ہلاک ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے حوالے سے پولیس افسر کا کہنا تھا کہ واقعہ بظاہر کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس کا بدلہ معلوم ہوتا ہے۔

کوہستان ویڈیو کیس

خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

مزید پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: ملزمان کے خلاف جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

رواں سال 2 جنوری کو کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں رقص کرنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کوہستان ویڈیو اسکینڈل: 'پانچوں لڑکیوں کو قتل کیا جاچکا ہے'

جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ عدالت نے اس وقت تین کمیشن مقرر کیے تھے ان کی کیا رپورٹ تھی، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کمیشن کے سامنے جعلی لڑکیاں پیش کرکے کہا گیا تھا کہ کسی کو قتل نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ایک کمیشن میں فرزانہ باری کو بھی شامل کیا گیا تھا، ان کی کیا رائے تھی، جس پر انہیں بتایا گیا کہ فرزانہ باری نے اس رپورٹ سے اختلاف کیا تھا اور اب ثابت ہوگیا ہے کہ ان کا اختلاف درست تھا اور لڑکیاں قتل ہوئی تھیں۔

عدالت عظمیٰ نے ملزمان کے خلاف 10 روز میں چالان پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ مقتولین کے لواحقین اگر چاہیں تو مقدمے کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں چلانے کی درخواست ہائی کورٹ میں دے سکتے ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024