منی لانڈرنگ کیس میں ایل این جی پلانٹس کے مالک گرفتار
کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) کراچی نے ڈرامائی طور پر مائع قدرتی گیس (ایل این جی) سے منسلک بڑے ناموں میں سے ایک اقبال زیڈ احمد کو لاہور میں ان کے دفتر سے حراست میں لے لیا۔
ترجمان نیب نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’انہیں لاہور سے نیب کراچی کی ٹیم نے گرفتار کیا اور لاہور کی احتساب عدالت سے منتقلی کا ریمانڈ ملنے پر انہیں منی لانڈرنگ کی تفتیش کے لیے کراچی منتقل کردیا جائے گا'۔
ترجمان نیب کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ اقبال زیڈ احمد نے مبینہ طور پر اپنے اکاؤنٹ میں 100 ارب روپے وصول کیے اور اس رقم کی منی ٹریل دینے میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ پر سزا میں اضافے کا بل قائمہ کمیٹی نے منظور کرلیا
دوسری جانب ان کے اہلِ خانہ نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منی ٹریل فراہم کرنے کے مطالبے تو ایک جانب انہیں یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ان کے خلاف تحقیقات بھی کی جارہی ہیں۔
ان کے اہلِ خانہ میں ایک فرد نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر تصدیق کی کہ انہیں ان کے ایسوسی ایٹڈ گروپ کے لاہور میں موجود ہیڈ آفس سے گرفتار کیا گیا لیکن نہ تو انہیں یہ معلوم تھا کہ اقبال احمد کے خلاف تحقیقات جاری ہیں اور نہ ہی یہ کہ گرفتاری سے قبل انہیں کوئی جواب فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم حیرت زدہ رہ گئے جبکہ گرفتار کرنے والی ٹیم نے وارنٹ گرفتاری بھی دکھانے سے انکار کردیا تھا جو بعد میں دکھایا گیا البتہ انہوں نے کوئی چارج شیٹ فراہم نہیں کی۔
مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کے خلاف تاریخ کی بڑی کارروائی کرنے جارہے ہیں، وزیر اعظم
نیب سے جاری ہونے والے بیان میں یہ تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ اقبال احمد سے منی لانڈرنگ کے کس الزام کے تحت تفتیش کی جارہی تھی۔
اس کے ساتھ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ اقبال احمد کو کتنے عرصے میں یا کب مبینہ 100 ارب روپے موصول ہوئے اور آیا کہ یہ ایک ہی اکاؤنٹ میں موصول ہوئے یا مختلف اکاؤنٹس میں موصول ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ اقبال احمد کی کمپنی پاکستان میں 2 ایل این جی ٹرمینلز کی مالک ہے اور اسے چلاتی ہے لیکن وہ اپنی کمپنی جامشورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ کے ذریعے سال 2000 سے مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) کے میدان میں پیداوار اور تقسیم کے حوالے سے ایک بڑا نام ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا منی لانڈرنگ سے متعلق سزائیں سخت کرنے کا فیصلہ
ایل این جی کے شعبے میں انہوں نے 2015 میں پلانٹ کے لیے بولی دے کر قدم رکھا کیوں کہ پاکستان میں ایل پی جی کے شعبے میں زوال آنا شروع ہوگیا تھا اور ایل این جی کو ایندھن کا مستقبل قرار دیا جارہا تھا۔
یہ خبر 5 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔