مسئلہ کشمیر پر تمام فریق تحمل سے کام لیں، امریکا
واشنگٹن: امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر تمام فریقین سے صبر و تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے۔
دوسری جانب بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک ماہ سے جاری کرفیو بھی کشمیری عوام کو خاموش نہیں کرسکا اور وہ 5 اگست کے کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو مسترد کر رہے ہیں۔
بھارت کی خبر ایجنسی دی وائر کے مطابق 'حکومتی فیصلوں پر ناانصافی کا اثر، بندوق سے خاموش کروانے کے احساس کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ حکومتی وقت سے متعلق بھی تلخی بڑھا رہا ہے'۔
مزید پڑھیں: لندن: کشمیریوں کے حق میں ہزاروں افراد کا بھارتی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج
ادھر 'دی ہندو' اخبار میں بتایا گیا کہ 'ریاست کو وفاقی اکائیوں میں تبدیل کرنے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے پر غیر محسوس طور پر غصہ بڑھ رہا ہے'۔
سری نگر کے رہائشی نے اخبار کے نمائندے کو وادی کی موجودہ حالات پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ 'تمام 70 لاکھ افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے'۔
دوسری جانب امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے حکام نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حراست میں لینے اور خطے کے رہائشیوں پر مستقل پابندیاں عائد کیے جانے پر تشویش کا اظہار کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم انسانی حقوق کے لیے عزت، قانونی طریقہ کار پر عمل اور متاثرین کے ساتھ مذاکرات پر زور دیتے ہیں، ہم صبر و تحمل پر زور دیتے رہیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کیلئے فضائی حدود بند کرنے کا فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا، وزیر خارجہ
حکام نے لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی میں کمی پر زور دیا کیونکہ میڈیا رپورٹس اور تھنک ٹینک کے ماہرین نے متنازع خطے میں کشیدگی بڑھنے اور دو جوہری قوت کے حامل ممالک میں جنگ کے خدشات کے اظہار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم تمام جماعتوں سے لائن آف کنٹرول پر امن و استحکام برقرار رکھنے اور سرحد پار دہشت گردی کو روکنے پر زور دیتے ہیں، ہم بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلے سمیت دیگر مسائل پر براہ راست مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں'۔
واشنگٹن کے تھنک ٹینک، امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن (یو ایس آئی پی) میں سابق سفیر برائے پاکستان رچرڈ اولسن نے کشیدگی کم کرنے اور بحران کا خاتمہ کرنے میں امریکا کی اہمیت پر زور دیا۔
امریکا کے لیے سابق پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر کشیدگی کو کم نہ کیا گیا تو بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ یہ دونوں سفارتکار یو ایس آئی پی میں کشمیر پر ہونے والے مباحثے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
یہ خبر 4 ستمبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی