210 ارب روپے کے 'جی آئی ڈی سی' کا خاتمہ مفت کا کھانا نہیں، وزیر توانائی
حکومت نے بڑے کاروباروں کے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کے تحت 420 ارب روپے کے بقایاجات میں سے 210 ارب روپے کے خاتمے کے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے ماضی کے اس بل میں کمی، مستقبل میں کم مگر یقینی محصولات کی وصولی کے لیے کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ 'یہ فرٹلائزر اور دیگر شعبوں کے لیے مفت کا کھانا نہیں ہے، جی آئی ڈی سی ختم کرنے کا آرڈیننس مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سی این جی کے شعبے کے لیے اسی طرح کے تصفیے کے لیے متعارف کرایا گیا جبکہ جی آئی ڈی سی (ترمیمی) ایکٹ کی طرز پر ہے۔
وزیر کا کہنا تھا کہ فرٹلائزر کو فارنزک آڈٹ جمع کرانا ہوگا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس نے کسانوں سے جی آئی ڈی سی اکٹھا کیا ہے یا نہیں اور اگر ایسا ہے تو اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کسانوں کو مستقبل میں قیمت میں کمی کرکے کتنی رقم واپس کی جانی ہے'۔
مزید پڑھیں: گیس کے بلوں کی حتمی تاریخ میں اضافے کا اعلان
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ 'تمام صنعتیں جو جی آئی ڈی سی کا حصہ ہیں اور عدالتی کیسز کا سامنا کررہی ہیں انہیں تصفیے سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنا ہوں گے جس کے تحت انہیں عدالتوں سے اپنے کیسز ختم کرنے ہوں گے، 90 روز میں گزشتہ بقایاجات میں سے 50 فیصد ادا کرنے ہوں گے اور اس کے بدلے میں انہیں مستقبل میں جی آئی ڈی سی کا آدھا ریٹ ملے گا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'جو اس آپشن کا استعمال نہیں کرتے وہ عدالتوں میں اپنے کیسز چلاسکتے ہیں تاہم ایک مرتبہ عدالت کا فیصلہ آجائے، پھر انہیں کم شرح نہیں ملے گی'۔
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ 'چند لوگ یہ غلط تصور پیش کررہے ہیں کہ حکومت نے 420 ارب روپے پر 210 ارب روپے کا انتخاب کیا ہے جبکہ 2011 سے 2014 کے درمیان جمع کی گئی 147 ارب روپے کی رقم کو غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے اور 273 ارب روپے کی رقم کے حوالے سے غیر یقینی صورت حال مختلف ہائی کورٹس سے حکم امتناع لیے جانے کی وجہ سے ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں اس کا خاتمہ کرکے 210 ارب روپے کی وصولی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں ریونیو میں اضافے کی امید ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت کو مجموعی بل میں سے صرف 15 فیصد موصول ہورہا تھا جبکہ دیگر 85 فیصد بقایاجات میں جمع ہورہا تھا جس کا حصول عدالتی فیصلوں کا منتظر تھا اور اس تمام معاملے میں 8 سے 10 برس لگ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ فیصلے کس سمت میں آئیں گے'۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ 'ہم اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ حکومت 15 ارب کے بجائے 42 ارب روپے سالانہ اکٹھا کرے، حکومت کو پہلے بھی یقین تھا کہ جی آئی ڈی سی کی شرح بہت زیادہ ہے اور اسے کم کرنے کی ضرورت ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: گیس کی نئی قیمتوں کا نوٹیفکیشن جاری، پیپلزپارٹی نے نرخ میں اضافہ مسترد کردیا
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت نے گزشتہ سال 25 ارب روپے اکٹھا کیے تھے جبکہ اُس نے 100 ارب کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن 20-2019 کے لیے حکومت نے 30 ارب کا ہدف مقرر کیا ہے۔
ندیم بابر کا کہنا تھا کہ وہ اور عمر ایوب صنعت کے ساتھ اُس وقت ہونے والے مذاکرات کا حصہ نہیں تھے جب موجودہ معاہدہ ہوا تھا تاہم سابق وزیر خزانہ اسد عمر اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے تفصیلی گفتگو کی تھی اور معاہدے اور آرڈیننس کو حتمی شکل دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا ماننا ہے کہ انہیں جی آئی ڈی سی پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے 10 سال کے لیے ان کا گیس ریٹ مقرر کردیا تھا جس میں سے 2 سال اب بھی باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے فرٹلائزر پلانٹ (فاطمہ اور اینگرو) کے 65 ارب روپے کے بقایاجات تھے اور اب انہیں 32 ارب روپے ادا کرنے ہوں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ جب وہ اس عرصے سے باہر آئیں تو انہیں کم شرح ملے۔
واضح رہے کہ عام صنعتوں کے بقایاجات 43 ارب تھے تاہم اب یہ 21 ارب ادا کریں گے، اسی طرح آئی پی پیز کے 10 ارب، کے الیکٹرک کے 34 ارب، واپڈا جینکوز کے 30 ارب اور سی این جی کے شعبے کے 78 ارب روپے کے بقایاجات تھے، جن میں سے آئی پی پیز 5 ارب، کے الیکٹرک 17 ارب، جینکوز 15 ارب اور سی این جی کا شعبہ 37 ارب روپے ادا کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سی این جی سے ہونے والی وصولی کو صارفین کو واپس نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس میں کئی لوگ ملوث تھے تاہم اس رقم کو حکومت کے خزانے میں جمع کیا جائے گا۔
تبصرے (2) بند ہیں