انکم ٹیکس قوانین پر فیصلہ کرنے کی سپریم جوڈیشل کونسل کی اہلیت چیلنج
سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی انکم ٹیکس سے متعلق پیچیدہ قوانین کے بارے میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت، اہلیت اور قانونی اختیار کو عدالت عظمیٰ میں چیلنج کردیا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ بار ایسوسی ایشن (کیو بی اے) کے صدر محمد آصف ریکی نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی، جس میں انہوں نے موقف اپنایا کہ ایس جے سی کے پاس انکم ٹیکس سے متعلق کیسز کے بارے میں فیصلہ کرنے کا قانونی اختیار نہیں جبکہ یہ ادارہ اس کی اہلیت اور صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست گزار کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قانون سے متعلق سوالات کا فیصلہ انکم ٹیکس اسٹیبلشمنٹ کے مجاز عہدیداروں کے قانونی عمل کے ذریعے ہونا چاہیے۔
مزید پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی چیف جسٹس سے اپنے خلاف ثبوت فراہم کرنے کی درخواست
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل انکم ٹیکس سے متعلق سوالات نہیں کرسکتی، لہٰذا مذکورہ ججز کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس قانونی طور پر غلط فہمی کا شکار ہوا اور اسے برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔
خیال رہے کہ صدارتی ریفرنس کے خلاف اسی طرح کی 5 درخواستیں دائر کی جاچکی ہیں، جن میں پہلی درخواست خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دائر کی تھی۔
اس کے علاوہ 2 درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور پاکستان بار کونسل کی جانب سے دائر کی گئیں جبکہ صدارتی ریفرنس سے متعلق پانچویں درخواست جیورسٹ عابد حسن منٹو اور سماجی کارکن آئی اے رحمٰن نے دائر کی تھی۔
کیو بی اے کے صدر کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس میں انکم ٹیکس قانون سے متعلق سوالات موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جسٹس قاضی فائز کی آئینی درخواست کی سماعت کیلئے فل کورٹ کی استدع
اس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ایک جج اپنی اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنے کا مجاز تھا یا نہیں بالخصوص تب جب اہلیہ خود ایک انکم ٹیکس فائلر تھیں اور ان کے اثاثے آمدنی بھی دے رہے تھے۔
درخواست گزار نے یہ موقف بھی اپنایا کہ جن ججز کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے کہ ان کی آزادی کا تحفظ بھی کیا جائے۔
محمد آصف ریکی نے دعویٰ کیا کہ ریفرنسز میں اس طرح کا حصولی اطمینان موجود ہی نہیں تھا۔
انہوں نے زور دیا کہ ججز کے خلاف دائر ریفرنسز میں آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت ججز کے حقوق کے ضابطہ اخلاق کی تشریح نہیں کی جاسکتی، تاہم بین الاقوامی مشق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس میں توازن ہونا ضروری ہے۔