بھارتی ریاست آسام میں 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تحت 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
ریاست آسام نے ’غیر ملکی دراندازوں‘ کو الگ کرنے کے مقصد سے این آر سی کی حتمی فہرست جاری کی گئی جس میں 3 کروڑ 29 لاکھ لوگوں نے دستاویزات جمع کروائی تھیں تاہم حتمی فہرست میں 3 کروڑ 11 لاکھ لوگ شامل کیے گئے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شہریت سے محروم کیے جانے والے افراد میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔
واضح رہے کہ آسام کی آبادی 3 کروڑ 30 لاکھ افراد پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 90 لاکھ بنگالی نسل کے لوگ بھی شامل ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جبکہ برطانوی دور اور 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کے وقت بھی کافی لوگ وہاں آکر آباد ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: اقوام متحدہ کا آسام میں شہریت کے متنازع عمل پر تحفظات کا اظہار
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی جانب سے شہریت کی فہرست جاری کرنے کے عمل کو ناقدین لاکھوں مسلمانوں کو بھارت سے بے دخل کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔
دوسری جانب بھارت کی غریب ترین ریاست آسام میں سالوں سے غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا جاتا رہا تھا جس میں رہائشی ’غیر ملکیوں‘ پر نوکریاں اور زمین چھیننے کا الزام لگاتے تھے۔
اس سے قبل آسام کئی دہائیوں تک بین المذاہب تنازعات اور نسلی کشیدگیوں کا مرکز بنا رہا اور بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوئے جس میں 1983 میں ہونے والے فسادات بھی شامل ہیں جن کے نتیجے میں 2 ہزار افراد قتل ہوئے۔
مزید پڑھیں: بھارت: آسام کے 40 لاکھ باشندے بھارتی شہریت سے محروم
چنانچہ این آر سی کی حتمی فہرست کے اجرا کے پیشِ نظر آسام میں سیکیورٹی سخت کردی گئی تھی جس کے تحت 60 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔
علاوہ ازیں مرکزی حکومت نے 20 ہزار اضافی پیراملٹری اہلکار آسام بھجوائے جبکہ فسادات کے خطرے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے 4 سے زائد افراد کے اکٹھے ہونے پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
فہرست میں شامل نہ ہونے والے افراد کیا کریں
حکومت کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کے نام حتمی فہرست میں شامل نہیں وہ 60 سے 120 روز میں غیر ملکی ٹریبونل میں اپیل کرسکتے ہیں۔
تاہم اس عمل میں اس سے قبل بھی خامیوں کا انکشاف ہوچکا ہے جس میں آسام سے تعلق رکھنے والے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ہی وزیر نے کہا تھا کہ اس فہرست میں متعدد اصلی بھارتیوں کو بھی درج نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: آسام میں ایک کروڑ 30 لاکھ شہریوں کی رجسٹریشن منسوخ
بھارتی حکومت کے مطابق اس فہرست میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا گیا جو 1971 سے پہلے بھارت میں رہائش پذیر ہونے کے دستاویزی ثبوت فراہم کرسکے۔
یہ بات بھی مدِنظر رہے کہ شہریت ثابت کرنے کا یہ عمل کافی پیچیدہ اور انتہائی کم شرح خواندگی والی ریاست کے لیے مشکل ثابت ہوا جہاں اکثر کے پاس ضروری دستاویزات ہی موجود نہیں۔
بے دخلی کا خوف
اسے قبل گزشتہ برس جولائی میں این آر سی نے فہرست جاری کی تھی جس میں 40 لاکھ افراد کا اندراج نہیں کیا گیا تھا تاہم انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے مزید وقت دے دیا گیا تھا۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق این آر سی کے حوالے سے پائے جانے والے خوف کے سبب خود کشی کرنے کے 40 واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ ٹریبونل میں اپیل کے بعد مسترد کیے گئے اور تمام قانونی ذرائع سے رجوع کرنے کے بعد بھی فہرست میں اندراج نہ پانے والے افراد کو غیر ملکی قرار دیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: بھارت: 'غیر مسلم' تارکین وطن کو شہریت دینے کا ترمیمی بل منظور
اور ایسے افراد کو ممکنہ طور پر بے دخل کرنے کے لیے 6 حراستی مراکز میں رکھا جاسکتا ہے تاہم بنگلہ دیش کی جانب سے تعاون پر اب تک رضا مندی کا اظہار نہیں کیا گیا۔
نئی فہرست کے اجرا کے پیشِ نظر 10 مزید کیمپ قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس میں 3 ہزار افراد کی گنجائش ہے جبکہ اس سے قبل کیمپوں میں ایک ہزار 135 افراد پہلے سے ہی موجود ہیں۔
بھارتی حکومت کی دھمکی
جولائی میں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی سے تعلق رکھنے والے بھارتی وزیر داخلہ نے بیان دیا تھا کہ پورے ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کی نشاندہی کر کے انہیں ملک بدر کردیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت سے تمام غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کردیا جائےگا، وزیر داخلہ
وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمان میں کہا تھا کہ حکومت آسام میں اپنی کوششوں کو محدود نہیں رکھے گی بلکہ غیر قانونی تارکین وطن پر سختی کی جائے گی۔
ناقدین نے نریندر مودی کی بھارتیا جنتا پارٹی کو مسلم اقلیت کے خلاف تعصب برتنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر ملکی تارکین وطن کے خلاف مہم مسلمانوں کے خلاف ہے اور اس کے ساتھ ہی خبردار بھی کیا تھا کہ مسلمان برادری کو مزید تنہا کرنے سے گریز کیا جائے۔