• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کیا پلاسٹک بیگ ہی سب سے بڑا ماحولیاتی مسئلہ ہیں؟

شائع August 30, 2019

احسن پریشان تھے کہ پلاسٹک بیگ بند ہونے کے بعد وہ اپنے گاہکوں کو سودا سلف کس میں دیں گے؟ ان کا اصرار تھا کہ میں انتظامیہ سے بات کرکے کوئی حل ڈھونڈوں۔

احسن ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نفیس نوجوان ہیں جو میرے گھر کے قریب کریانے کی ایک بہت بڑی اور جدید دکان چلاتے ہیں۔ احسن کو تو میں نے ایک شناسا افسر کا نمبر دے دیا کہ وہ خود ہی بات کرلیں۔

لیکن ایک سوال میرے ذہن سے چپک گیا!

معاملہ یہ ہے کہ سستے اور کارآمد ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کے یہ تھیلے ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گئے ہیں۔ سودا سلف خریدنا ہو تو یہ شاپر بیگ، دودھ، دہی اور سبزی لانی ہو تو بھی یہی پلاسٹک بیگ اور تو اور کوڑا پھینکنے کے لیے بھی ان تھیلوں سے بہتر کچھ نہیں۔

پاکستان پلاسٹک مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے مطابق ہر سال ملک میں 55 ارب پلاسٹک کے تھیلے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اگر انتظامیہ نے متبادل انتظام کیے بغیر یہ تھیلے بند کردیے تو دکاندار اور گاہک سب مشکل میں پڑجائیں گے۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ پہلے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے ہوا کرتے تھے۔ یکدم ذہن میں وہ درجنوں سرکاری سلائی اسکول گھوم گئے جو اسلام آباد کے کم و بیش ہر سیکٹر میں موجود ہیں، آخر انتظامیہ ان مراکز سے تھیلے کیوں نہیں سلواتی؟

سوچتے سوچتے خیال آیا کہ پہلے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے ہوا کرتے تھے
سوچتے سوچتے خیال آیا کہ پہلے سودا سلف کے لیے کپڑے کے تھیلے ہوا کرتے تھے

ذہن میں یہ خیال آتے ہی میں نے فیصل آباد فون کیا تو معلوم ہوا کہ ہڑتال کی وجہ سے فیکٹریاں اور مِلیں تو بند ہیں لیکن تھیلوں کے لیے کپڑا انتہائی ارزاں نرخوں پر دستیاب تھے۔ تمام ڈھانچہ اور افرادی قوت موجود تھی۔ اب بس سلائی مراکز میں تھیلے بنانے کے بعد ان کو ایک وین میں ڈال کر اسلام آباد کے سرکاری بازاروں اور دکانوں تک پہنچا دینا تھا اور دام کھرے کرلینے تھے۔

آمدنی میں سے کچھ حصہ سلائی کرنے والی خواتین پر جبکہ باقی رقم اولڈ ہومز یا پھر کسی بھی دوسرے خیراتی کام پر خرچ کی جاسکتی تھی۔ سارے منصوبے کو چلانے کے لیے ایک نائب تحصیل دار یا زیادہ سے زیادہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کافی تھا۔

میں نے ضلع کے سربراہ کو فون کیا اور تجویز ان کے گوش گزار کی تو وہ بہت خوش ہوئے اور جوش میں آکر بولے کہ اس کو فوری کرتے ہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ چند دن بعد ضلع کے ایک چھوٹے افسر سے سامنا ہوگیا۔ انہوں نے چھوٹتے ہی مجھ پر چڑھائی شروع کردی۔ ’بھائی تم ہمیں نوکری کرنے دو گے یا نہیں؟‘

میں گھبرا گیا اور پوچھا کہ ہوا کیا؟

وہ میرا سوال نظر انداز کرکے بولتے رہے۔ ’اسلام آباد میں ایک تو نوکری کرنا پہلے ہی بہت مشکل ہے۔ ہر کسی کی چاکری کرنی پڑتی ہے۔ سب کو خوش رکھنا پڑتا ہے۔ یہاں ہڑتالوں اور وی آئی پی ڈیوٹی سے جان نہیں چھوٹتی اور تم ہو کہ نئے نئے مشورے دے کر ہمارا کام بڑھا رہے ہو۔ بیورو کریسی کا کام پراجیکٹس لگانا یا پھر معاشرے میں بہتری لانا ہرگز نہیں۔ ہمارا کام فقط ڈنڈا چلانا ہے‘۔ وہ بے تکان بولے جارہے تھے۔

دل تو کیا کہ میں بھی ایک جوابی بھاشن دے دوں۔ اُن کو اُن کا حلف یاد کروا دوں۔ اُن کی تنخواہ اور معیارِ زندگی کے درمیان کھلے تضاد، حلال کمائی کی اہمیت اور دنیا کی بے ثباتی پر ایک لیکچر جھاڑ دوں۔ مگر پھر اس ڈر سے کہ وہ کہیں عملے کے ساتھ مل کر دقیانوسی خیالات پر میری اجتماعی ہرزہ سرائی نہ شروع کردیں، اس لیے میں نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا اور اپنی راہ لی۔

یہ ایک بہت ہی بُرا خیال تھا۔ آج کے دور میں ایک صحافی کا کیا کام کہ وہ مسائل کے حل تجویز کرتا پھرے؟ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اسلام آباد کی شاہراہِ جمہوریت سے لے کر پنڈی اور آگے تک، ہر کوئی قصیدہ گوئی کا دلدادہ ہے۔ میں کڑہتا رہا۔ شام کو میری ساری شرمندگی اس وقت کافور ہوگئی جب کان میں پڑا کہ پلاسٹک کے ایسے تھیلے جو جلد گل سڑ جاتے ہوں، یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل تھیلوں کی خریداری کے لیے ایک بڑی کمپنی سے معاہدہ زیرِ غور ہے۔ یعنی تھیلا تو پلاسٹک کا ہی ہوگا مگر مہر سرکاری ہوگی۔

وفاقی وزیر مملکت زرتاج گل پریس کانفرنس میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگانے کا اعلان کررہی ہیں
وفاقی وزیر مملکت زرتاج گل پریس کانفرنس میں پلاسٹک کے تھیلوں پر پابندی لگانے کا اعلان کررہی ہیں

سارا معاملہ کھل گیا۔ 14 اگست کے تاریخی دن دارالخلافہ کو پلاسٹک بیگ سے آزاد کرواکر انتظامیہ نے خوب داد سمیٹی۔ مہنگائی اور بلوں کے مارے دکانداروں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ نئے مہنگے تھیلوں سے متعلق فیصلہ گاہکوں پر ہی چھوڑ دیا جائے تو یہی بہتر ہے۔

کل شام بیگم نے تنوری روٹیوں کی فرمائش کردی، تیز بارش ہورہی تھی۔ بارش کا پانی تمام کوڑا کرکٹ اور فضلہ سڑک پر کھینچ لایا تھا۔ روٹیوں کے انبار کو باریک کاغذ کی دو پرتوں کے درمیان سنبھالنے کی جستجو میں روٹیاں تو بچ گئیں، لیکن تمام تر کوشش کے باجود جوتے سڑک پر بہتے غلیظ پانی میں لتھڑ ہی گئے۔

دماغ میں بجلی سی کوندی۔ کیا اسلام آباد کے ماحول کی بربادی کی وجہ صرف پلاسٹک بیگ ہی تھے؟ میں ایک زمانے میں ماحولیات پر لکھتا رہا ہوں۔ اس وقت جنگلات کی بے دریغ کٹائی، آلودہ نالے، سیکٹر آئی نائن کی زہر اگلتی فیکٹریاں اور کثیف دہواں چھوڑتی گاڑیاں اور ماربل کرشنگ، اسلام آباد میں آلودگی کا سب سے بڑا ماخذ بیان کی جاتی تھیں۔

کیا ان کا سدِباب کرلیا گیا ہے؟ تیزی سے پھیلتے شہر کا کوڑا ٹھکانے لگانا بھی ایک سنگین مسئلہ تھا جس کے لیے کری کے مقام پر ایک خندق بنائی جانی تھی۔ پھر لینڈ مافیا آڑے آگیا۔ شہر بھر کا گند شہر سے دُور شاہ اللہ دتہ گاوں کے قریب چھپکے سے دبایا جانے لگا۔ کیا شہر کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی مناسب انتظام ہوگیا ہے یا آج بھی کوڑے کو گلنے سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

بارہ کہو میں سڑک پر موجود گرین بیلٹ پر ہر طرف کچرا موجود ہے
بارہ کہو میں سڑک پر موجود گرین بیلٹ پر ہر طرف کچرا موجود ہے

اسلام آباد میں 100 سے زائد شفاف پانی کے چشمے تھے جنہیں جا بجا سیوریج کے پائپ گزار کر آلودہ کردیا گیا۔ کیا ان شہری منصوبہ سازوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ کیا بنی گالہ، بارہ کہو یا دوسرے گنجان آباد مضافاتی علاقوں میں کوڑے دان رکھ دیے گئے ہیں، جو ہنوز سی ڈی اے میں شامل نہیں۔

کیا مری سے اسلام آباد تک کے پولٹری فارموں، ہاوسنگ اسکیموں، حتی کہ ڈپلومیٹک انکلیو کے سیوریج کو بھی پانی پینے کی ذخیرے راول جھیل میں گرنے سے روک دیا گیا ہے؟ یا محض پلاسٹک کے تھیلے بند کرکے انتطامیہ اور وزارتِ ماحولیات اپنی جملہ ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوگئی ہے۔ کیا یہی تو وہ مشہورِ زمانہ ڈاکٹرائن نہیں، جس کا ہر طرف چرچا ہے۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (10) بند ہیں

Rizwan Aug 30, 2019 10:00pm
آپ کے اس مضمون کو زرتاج گل تک لازمی پہنچا چاہیے خاص کر راول ڈیم تک پہنچنے والے گندے پانی والی۔
Chota admi Aug 31, 2019 10:46am
mera khayal hay bohat he valid point raise kia hay likhari nay ,,, in ewanon main corruption gross root level per majood hay aik pen ke khiradri say lay ker bari bari machinery tak, projects kick backs etc . masyal ka hal individual level per honesty, dedication or fairness hay uss per phir kanoon ke hukamrani..
M. Saeed Aug 31, 2019 12:42pm
An eye opener article for the authorities. But, do they have eyes?
Imran Hyder Aug 31, 2019 06:58pm
What a Excellent column for making people aware about environmental pollution. There should be more column on same topic so maximum number people read.
KHAN Aug 31, 2019 11:16pm
@Rizwan زرتاج گل تو اپنے محلے کی گلیوں سے صفائی نہ کراسکتی تو راول ڈیم کو صاف رکھنا ان کے لیے بہت ہی بڑا کام ہے، ہم نے تو ان سے بہت توقعات وابستہ کی تھی، ان کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرپرسن بنانے کی درخواستکی مگر وہ بھی اسلام آباد کے رنگ میں رنگ گئی اور اندھا بانٹے ریوڑیوں کا عمل شروع کردیا، زرتاج گل کراچی بندرگاہ پر آلودگی اور پورٹ قاسم پر کوئلے کی آلودگی دیکھ لیں تو ان کی آنکھیں کھل جائیں ۔
mengrani Sep 01, 2019 06:15am
@M. Saeed آپ نے آنکھوں سے متعلق پوچھا ھے یہ تو صرف ھوا ھیں بھوت کی طرح چپکتے ھیں
honorable Sep 01, 2019 01:42pm
Can your voice heard by illiterate rulers? If so please continue.
honorable Sep 01, 2019 01:43pm
@Rizwan you are absolutely right. hAS Zartaj gul vision to see all this?
honorable Sep 01, 2019 01:47pm
@M. Saeed آپ سنجیدہ ہیں لیکن آپ حکومت سے متمرکز حصوں کو بیدار کرنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
Faisal Latif Sep 03, 2019 06:30pm
Very thought provoking. However, I feel that the plastic industry should be given some way out to survive and adopt to the biodegradable bags. Govt must help those who lost their jobs. I know Ahsan Abbasi, a thorough gentleman from Bani Gala. I am sure he will survive through the change of bags.

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024