’مجھے یہ جاننا ہے کہ میں اس دنیا میں کیوں آیا ہوں‘
’مجھے اپنے پرپز (مقصد) کی تلاش ہے۔ میں اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہوں؟‘ یہ سننا تھا کہ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، 'ہلکے ہو جاؤ لڑکے'۔ اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ وہ ہونقوں کی طرح مجھے مسکراتا دیکھ، منہ میں ہی الفاظ چبا کر نگلنے لگا۔
آؤ یہاں بیٹھو۔ میں نے اسے کاؤچ پر بٹھایا، اس کے لیے چائے منگوائی اور آستینیں چڑھا کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ مجھے تمہاری ہسٹری بہت اچھے سے معلوم ہے، معاف کرنا بیٹے مگر میں کوئی لگی لپٹی نہیں کہوں گا۔ کبھی کبھی ہمارے لیے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ ہمیں قدرت کی طرف سے ایک سناٹے دار چانٹا پڑے تاکہ ہمارے جھوٹ اور خود فریبی پر بنے محلات کرچی کرچی ہوکر گر جائیں۔
میں بخوشی اس تھپڑ کا میڈیم بننے کو تیار ہوں۔
وہ بہت گھبرایا ہوا اور پریشان نظر آرہا تھا۔ میں نے بات کا آغاز سوال سے کیا۔
'فرض کرو، تمہیں آج آسمان کے اس پار سے ایک چٹھی موصول ہو اور اس میں تمہارا ’پرپز‘ لکھ کر بتا دیا جائے تو تم کیا کرو گے؟'
‘میں اس پرپز کو پانے کی کوشش میں لگ جاؤں گا‘، چائے کی پیالی اس نے میز پر دھر دی۔
اور اگر اس کے لیے تمہیں کوئی نئی مہارت سیکھنا پڑی تو؟
‘میں سیکھوں گا'۔
اور اگر اس کے لیے تمہیں اپنے پیاروں سے الگ ہونا پڑا، اس منزل تک پہنچنے کے لیے بے پناہ صبر سے گزرنا پڑا اور اس کے ممکنہ نتائج کو تنِ تنہا سہنا پڑا، جو ممکن ہے کہ تمہارے خوابوں سے الگ ہوں، تب؟
‘میں یہ سب کر جاؤں گا'۔
میں ہنس دیا۔
بیٹے تم نے پچھلے 2 برسوں میں 7 ملازمتیں چھوڑی ہیں، پچھلے 4 ماہ سے تم گھر بیٹھے ‘انٹرپرنیور’ بننے کے خواب دیکھ رہے ہو۔ انہی 4 ماہ میں تم نے 7 مرتبہ اپنے ہی اسٹارٹ اپ آئیڈیاز کو بدلا ہے۔ آخری دفعہ تم نے اپنے دوست کو دیکھ کر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کی کمپنی شروع کرنے کا سوچا تھا اور اب تم آؤٹ سورس انڈسٹری میں قدم رکھنے کو کسی گورے گاہک کی تلاش میں ہو۔ البتہ اسے ڈھونڈنے کے لیے جو طریقہ استعمال کرنا ہے وہ تم سے اب تک فائنل نہیں ہوا اور تم نے اس سے پہلے جو سب سے زیادہ عرصہ کسی ایک آئیڈیا پر کام کیا ہے وہ ہے ایک مہینہ اور 12 دن، جن میں جو واحد کام تم نے کیا وہ 9 مرتبہ کمپنی کا نام اور 3 دفعہ لوگو بدلوانا تھا۔
اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ گال سرخ ہو رہے تھے۔ ایسے جیسے کسی گوبر پر بیٹھے مست داند کو اُٹھانے کی سعی کرو تو وہ بُرا مان جاتا ہے۔ مگر مجھے معلوم تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔
تم نے ان 4 ماہ میں درجنوں مرتبہ اپنی ‘روٹین سیٹ’ کرنے کا سوچا ہے، تم ایک ہفتہ رات جاگ کر کام کرنے کا فیصلہ کرتے ہو اور دوسرے مہینے علی الصبح، برکت والے ٹائم کام شروع کرنے کی ٹھانتے ہو پر ایک دن جاگ کر اگلے روز 12 بجے تک سوئے پڑے رہتے ہو کہ اس سے پچھلی رات تم نے نیٹ فلکس اور یوٹیوب کی وادیوں میں بھٹکتے گزاری ہوتی ہے۔
قسم اُٹھاو، کیا ایسا نہیں ہے؟
کہنے لگا، ‘But I am in pursuit of something’
میں نے جواب دیا، ‘The pursuit you don’t have any freaking idea about’ اس کی حالت قابلِ رحم ہو رہی تھی۔
کیا آپ نے مجھے یہاں ڈی موٹی ویٹ کرنے کو بلایا ہے؟ میں آپ کے پاس موٹیویشن کے لیے آیا تھا۔
بیٹے موٹیویشن ان کے کام آتی ہے جو کوئی کام کر رہے ہوں یا جنہوں نے کام کرنا ہو۔ آخری مرتبہ جب تم موٹی ویٹ ہوئے تھے تو تم نے جِم جانا شروع کیا تھا کہ تمہارے مطابق A healthy mind is always in a healthy body ہوتا تھا۔
مگر اس کے بعد تم کتنے دن وہاں گئے؟ گن کے 3 دن۔ ذرا نیچے نظر ڈالو، تمہارے پیٹ پر 2 بل پڑے ہوئے ہیں۔ وہ 6 ایبز جو تم نے بنانے کا سوچا تھا وہ اس چربی کے ڈھیر تلے کہیں سوئے پڑے ہیں۔ تمہیں میرے پاس سیڑھیاں چڑھ کر آنا تھا تو تمہیں سانس چڑھ گیا جبکہ تمہاری انسٹا گرام بائیو میں ‘ہیش ٹیگ فٹنس فریک’ لکھا ہوا ہے۔
‘آپ میرا مذاق اُڑا رہے ہیں۔‘
نہیں بیٹے میں نے ابھی شروع کیا ہے۔
مجھے معلوم تھا کہ میں اسے تپا رہا ہوں، یہی میرا مقصد بھی تھا۔ پر وہ بے بس تھا۔
تم نے آخری مرتبہ ایک کلائنٹ سے ملنے جانا تھا، اس بات کو ایک مہینہ ہوگیا، تم گئے؟
‘جی نہیں۔ مجھے وقت نہیں ملا۔ میں مصروف تھا۔‘
اوہ۔ رائٹ۔
اور جس پرپز کی تمہیں تلاش ہے اس کے لیے ایک خاص مزاج، صبر، استقامت اور پانی جیسا بہاؤ چاہیے ہوتا ہے۔ تم میں ان سب میں سے کچھ ہے؟
تم نیٹ فلکس پر ایک سیزن کو قسط وار نہیں دیکھتے کہ تم سے اگلی قسط تک کا انتظار نہیں ہوتا۔ تم پورے سیزن کو ایک ہی دن میں نمٹا جاتے ہو۔
تمہارے دوستوں کو تمہاری جذباتی ہونے سے چڑ ہے اور وہ تمہیں رفتہ رفتہ چھوڑ چکے ہیں۔
تم نے اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ 3 سال کا تعلق رکھ کر اس لیے منع کردیا کہ تمہارے حالات اس قابل نہیں کہ تمہاری امّی مان جائیں۔ تم نے ان 3 سالوں میں کیا کیا اسے پانے کے لیے؟ تم میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ تم محبت کے لیے اس قابل بنو کہ تمہاری ماں مان جاتی۔
It wasn’t meant to end happily، اس نے حسبِ عادت کوئی عزر پیش کیا۔
نہیں بیٹے، تم نے جس سے محبت کا دعوٰی کیا اسے اپنی عادتوں کے ہاتھ ہار دیا۔ تمہاری عادتیں تمہاری محبت سے زیادہ طاقتور ہیں۔
وہ کاؤچ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔
بیٹھ جاؤ بچے۔ میں نے ابھی بات مکمل نہیں کی۔
آپ میری توہین کر رہے ہیں۔ مجھے ‘جج’ کر رہے ہیں۔
میں نے تو بالکل ‘جج’ نہیں کیا بیٹے۔ صرف ان چیزوں کو دہرایا ہے جو تم کرتے آرہے ہو۔ تمہیں لگتا ہے کہ میں نے جھوٹ کہا ہے تو تم دعوٰی کرسکتے ہو۔
وہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔
مجھے معلوم ہے کہ تم اس کمرے سے نکلنے کے بعد، اگلے 2، 4 دن خوب کام کرو گے، کچھ پرانے کام جو عرصے سے ادھورے ہیں، انہیں مکمل کرلو گے اور سمجھو گے کہ زندگی اب ڈگر پر آگئی ہے۔
لیکن ایسا نہیں ہے بیٹے۔ میری دل سے دعا ہے کہ تم کامیاب رہو۔ کامران رہو۔ پر خود کو بے محل سرابوں کا مکین مت رکھو۔
تم جس ‘پرپز’ کی تلاش میں ہو وہ کوئی گھر آکر نہیں بتائے گا تمہیں۔ خود کو ہیلے بہانوں سے آزاد کرو۔ تم صرف اور صرف خود کو دھوکہ دے رہے ہو۔ پہلے اس قابل بنو کہ قدرت تم پر کسی ذمہ داری، کسی ‘پرپز’ کا بوجھ ڈال سکے۔ تم میں وہ گہرائی اور گیرائی ہو کہ تم اس مقصد کے حصول کے لیے غیر معینہ مدت کے لیے جتے رہ سکو، اس کے لیے لڑ سکو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں ناکام ہوجانے کی صورت میں تمہیں مایوسی نہ رہے، تمہیں اسی بات پر فخر رہے کہ تم نے اس مقصد کے لیے کچھ کام کیا ہے۔ میرے بیٹے، ‘پرپز’ انسان کو نتائج سے بے نیاز کردیتا ہے۔ جبکہ ہم تو کسی سے تعلق بھی اس وقت تک نہیں رکھتے جب تک ہمیں اس سے کچھ کام نہ ہو۔
تمہیں جو کرنا چاہیے وہ کرو، محنت سے، اپنے کمفرٹ سرکل سے نکل کر اپنی جستجو کے پیچھے بھاگو، تمہارا پرپز خود تم تک پہنچ جائے گا، لیکن اس کی تلاش میں رہ کر کچھ نہ کرنا سراسر ناکامی ہے۔
‘پرپز’ کی تلاش بعد میں کرنا پہلے اس کے لیے اتنی قابلیت اور اعتماد پیدا کرو کہ تم اس کے لیے اپنا آپ کُلی طور پر جُتا سکو۔ اس کے لیے لڑسکو، اس کے لیے قربانی دو اور اس کے نتائج کو قبول کر سکو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کی تکمیل نہ ہونے کی صورت میں بھی سر اُٹھا کر جی سکو۔
اس نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا تو میں نے صوفے سے اُٹھتے ہوئے اس کی ٹھوڑی اوپر اُٹھائی اور کہا کہ پہلے محنت کی آخری حد تک پہنچو، وہاں تمہیں قسمت گلے لگانے کو مسکراتی ملے گی اور اسی سفر کے دوران تمہارا ‘پرپز’ تمہیں عطا کردیا جائے گا۔
تبصرے (3) بند ہیں