بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں سرکاری ملازمین کی بھرتیوں کا منصوبہ
نئی دہلی کی جانب سے کشمیریوں کو 7 دہائیوں سے حاصل آئینی حق کو ایک صدارتی حکم کے ذریعے ختم کرنے کے بعد بھارت نے کہا ہے کہ اس کا مقبوضہ وادی میں ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کی بھرتیاں کرنے کا منصوبہ ہے۔
امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق نئی دہلی کی جانب سے تقرر کردہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر ستیا پال ملک نے ان بھرتیوں کو متنازع علاقے میں سب سے بڑی بھرتی مہم قرار دیا اور کہا کہ حکام 'آئندہ کچھ ماہ میں مختلف حکومتی محکموں میں 50 ہزار ملازمتوں' کو بھرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سرنگر میں ایک نیوز کانفرنس میں انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت سیب کے کسانوں کی مدد کے لیے 70 کروڑ ڈالر مختص کرنے کے لیے تیار ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا بھارتی انتظامیہ کو یقین ہے کہ اس اقدام سے خطے کی معیشت بڑھے گی، جس میں باغبانی خاص طور پر سیب کے باغات اہم ہیں۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: لاک ڈاؤن کے باوجود 500 مظاہرے، سیکڑوں افراد زخمی
ستیا پال ملک نے لوگوں کو امن کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ جلد ہی مقبوضہ کشمیر میں 'حالات معمول' پر اجائیں گے، اس کے علاوہ مقبوضہ وادی کے 10 اضلاع میں موبائل فون سروسز بھال ہوجائے گی جبکہ شمالی کپواڑہ اور ہنڈواڑہ پولیس اضلاع میں بھی موبائل فون سروسز واپس آجائے گی۔
ادھر خبررساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ ستیا پال ملک نے نیوز کانفرنس کے دوران اس بات کو تسلیم کیا کہ بھارت کی پیراملٹری فوسز مقبوضہ وادی میں مظاہروں کے درمیان پیلٹ گنز کا استعمال کیا۔
خیال رہے کہ بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا، ساتھ ہی وادی میں کرفیو اور مکمل لاک ڈاؤن سمیت مواصلاتی نظام معطل کردیا تھا جو مسلسل 25 روز سے جاری ہے۔
بھارتی حکام کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے متعلق اقدام کو معیشیت کو فروغ دینے کا طریقہ قرار دے رہے جبکہ وہ متنازع خطے میں بین الاقوامی سرمایہ کاری سمٹ کی بھی منصوبہ بندی کر رہے کیونکہ بھارت کی معیشت گراوٹ کا شکار ہے۔
تاہم مقبوضہ کشمیر میں موجود مختلف لوگوں کا ماننا ہے کہ خصوصی حیثیت کے خاتمے سے خطے کی معیشت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ وہ اسے بھارتی حکومت کی طرف سے ایک جارحیت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ
خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘
آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھا دیا تھا، بعدازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کرنے کے بعد کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عیدالاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی تھی۔
بھارتی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر غیرملکی ذرائع ابلاغ نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔