• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:58am
  • LHR: Fajr 5:16am Sunrise 6:42am
  • ISB: Fajr 5:24am Sunrise 6:52am

’چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ سے ملاقات میں ججز کی تبدیلی پر بات نہیں ہوئی‘

شائع August 29, 2019
فروغ نسیم کے مطابق ملاقات کشمیر ہاؤس میں ہوئی اور اس میں چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر بھی موجود تھے — فائل فوٹو: اے پی پی
فروغ نسیم کے مطابق ملاقات کشمیر ہاؤس میں ہوئی اور اس میں چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر بھی موجود تھے — فائل فوٹو: اے پی پی

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے واضح کیا ہے کہ انہوں نے لاہور ہائی کوٹ کے چیف جسٹس سردار شمیم خان سے ملاقات میں ججز کو ہٹانے سے متعلق کوئی گفتگو نہیں کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اپنی پریس کانفرنسز میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور وزیر قانون کی ملاقات کا ذکر نہیں کیا، تاہم فروغ نسیم نے اس ملاقات کا خود ہی اعتراف کرلیا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس سردار شمیم خان سے ملاقات کی لیکن ججز کے ٹرانسفر یا ان کی پوسٹنگ سے متعلق کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔

ڈان سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات کشمیر ہاؤس میں ہوئی جبکہ اس دوران چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر تبسم آفتاب علوی بھی موجود تھے۔

مزید پڑھیں: حکومت کا جج کی مبینہ ویڈیو کی فرانزک تحقیقات کرانے کا فیصلہ

فروغ نسیم نے بتایا کہ اس ملاقات کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے مجوزہ قانون کے مسئلے پر تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی وزارت مذکورہ اصلاحات کے لیے متعلقہ ہائی کورٹس سے رواں برس جون سے رابطے میں ہے۔

فروغ نسیم نے واضح کیا کہ ججز کی منتقلی کا نوٹیفکیشن 26 اگست کو جاری کیا گیا جبکہ ان کی اور چیف جسٹس کی ملاقات اس نوٹیفکیشن کے بعد ہوئی۔

انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کسی بھی جج کو ہٹانے کے لیے ان کی وزارت کی جانب سے کوئی واٹس ایپ میسج نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: حسین نواز نے 50 کروڑ روپے رشوت کی پیشکش کی، جج ارشد ملک

خیال رہے کہ 28 اگست کو ہی مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کیس کی سماعت کے دوران جج نے واٹس ایپ پر احکامات موصول ہونے کے بعد کیس کی مزید سماعت سے انکار کردیا تھا۔

سماعت کے دوران جج مسعود ارشد نے کمرہ عدالت میں بتایا تھا کہ ’مجھے ابھی واٹس ایپ میسج موصول ہوا ہے اور ہائی کورٹ نے مجھے کام کرنے سے روک دیا ہے جبکہ میری خدمات بھی واپس کر دی گئی ہیں‘۔

انہوں نے واضح کیا تھا کہ رانا ثنا اللہ یا کسی کا بھی کیس ہوتا میرٹ پر فیصلہ ہونا تھا لیکن اب لیگی رہنما کے خلاف کیس کی مزید سماعت نہیں کرسکتے۔

لیگی رہنماؤں کے کیسز کی سماعت کرنے والے ججز کی خدمات واپس

یاد رہے کہ 28 اگست کو لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر حمزہ شہباز سلمان شہباز اور سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ کے خلاف کیسز کی سماعت کرنے والے ججز کی خدمات واپس لے لی تھیں۔

ہائی کورٹ رجسٹرار کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق جن ججز سے خدمات واپس لی گئیں ان میں احتساب عدالت کے ججز مشتاق الہٰی اور محمد نعیم ارشد جبکہ انسداد منشیات عدالت کے جج مسعود ارشد شامل ہیں۔

خیال رہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد نعیم ارشد شہباز شریف کے خلاف رمضان شوگر ملز، مریم نواز کے خلاف چوہدری شوگر ملز، حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ اور رمضان شوگر ملز، سلمان شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیسز کی سماعت کر رہے تھے جبکہ مسعود ارشد رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات برآمدگی کے کیس کی سماعت کر رہے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 27 نومبر 2024
کارٹون : 26 نومبر 2024