فیس بک کا صارفین سے جھوٹ بولنے کا اعتراف
کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل نے گزشتہ سال فیس بک کو ہلا کر رکھ دیا تھا مگر اب نئی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ سماجی رابطے کی مقبول ترین ویب سائٹ کو اس کا علم ستمبر 2015 میں ہی ہوچکا تھا، جبکہ یہ کمپنی امریکی ایوان نمائندگان اور دیگر مقامات پر دسمبر کا ذکر کرتی رہی ہے۔
درحقیقت اب فیس بک نے ہی ایک بلاگ پوسٹ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ کمپنی کی جانب سے کیمبرج اینالیٹیکا کی جانب سے ڈیٹا کے غلط استعمال کے حوالے سے ستمبر 2015 میں تحقیقات ہورہی تھی۔
مگر یہ بلاگ پوسٹ کچھ اس طرح کی گئی ہے جیسے کمپنی کی خواہش ہو کہ یہ لوگوں کی نظروں سے دور رہے۔
فیس بک کے ایک ملازم کی 22 ستمبر 2015 کی ایک ای میل کے مطابق 'ہمیں شک ہے کہ ایسی متعدد کمپنیاں اس طرح کا کام کررہی ہیں، ان میں سب سے بڑی اور جارحانہ سوچ رکھنے والی کیمبرج اینالیٹیکا ہے، ایسی ڈیٹا کمپنی جو ہماری مارکیٹ کی گہرائی میں اتری ہوئی ہے'۔
اس ای میل میں ملازم کی جانب سے کمپنی سے پوچھا گیا تھا کہ کیا کیمبرج اینالیٹیکا کی سرگرمیوں کے حوالے سے مخصوص ردعمل تیار کیا جانا چاہیے یا نہیں۔
فیس بک کے ڈپٹی قونصل پال گریوال کی جانب سے شائع اس دستاویز میں زور دیا گیا ہے کہ اس سے کچھ نیا ثابت نہیں ہوتا اور فیس بک کو دسمبر 2015 میں ہی علم ہوا تھا کہ یہ کمپنی ڈیٹا خرید رہی ہے، ستمبر 2015 کا مباحثہ ایک الگ معاملہ ہے جس میں کیمبرج اینالیٹیکا پر جعلی پروفائلز تیار کرنے کے الزامات کو دیکھا گیا تھا۔
انہوں نے لکھا 'فیس بک دسمبر 2015 سے قبل آگاہ نہیں تھی کہ کیمبرج اینالیٹیکا کو ڈیٹا فروخت کیا جارہا ہے، یہ وہ حقیقت ہے جو ہم نے حلف دے کر بیان کی ہے اور ہم اس موقف پر قائم ہیں'۔
مگر اس دستاویز سے 2 چیزیں واضح ہیں، ایک یہ کہ ستمبر 2015 میں کیمبرج اینالیٹیکا سیاسی پالیسی کی خلاف ورزی پر فیس بک کی نظر میں تھی اور دوسری یہ کہ فیس بک کی ٹیم کیمبرج اینالیٹیکا کی جانب سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کی پالیسیوں کی خلاف ورزی کے حوالے سے بالکل بھی تیار نہیں تھی۔
اس دستاویز کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فیس بک ملازمین کو علم نہیں تھا کہ اس حوالے سے پالیسی ہے بھی یا نہیں یا انہیں اس طرح کی ایپس کے خلاف اقدامات کرنے کی اجازت نہیں تھی، جیسے ایک عہدیدار نے 30 ستمبر 2015 کو ایک ای میل میں لکھا 'مجھے یقین نہیں آتا کہ اس وقت ہمارے پاس اس حوالے سے کوئی تحریری پیغام نہیں'۔
اس دستاویز میں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیس بک ملازمین نے ایسی ایپس کے خلاف تحقیقات شروع کی تھی، پھر جب برطانوی روزنامے دی گارڈین نے کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل کا انکشاف کیا تو یہ فیس بک کے لیے بڑا مسئلہ بن گیا۔
اس اسکینڈل کے نتیجے میں فیس بک کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی تھی، حصص کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جبکہ مارک زکربرگ کو امریکی قانون سازوں کے سامنے پیش ہونا پڑا۔
کیمبرج اینالیٹیکا، ایک برطانوی کمپنی تھی، جسے 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران دولت مند ریپبلکن ڈونرز کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے لیے سرمایہ فراہم کیا گیا۔
فیس بک کے مطابق اس کمپنی نے 8 کروڑ 70 لاکھ فیس بک صارفین تک غیرقانونی طور پر رسائی حاصل کرکے اسے استعمال کیا، اس کے باعث کمپنی کو مختلف حکومتوں کی جانب سے جرمانے کی سزاﺅں کا بھی سامنا ہوا۔