ہائی بلڈپریشر دماغی حجم کم کرسکتا ہے، تحقیق
بلڈ پریشر کا خیال نہ رکھنا عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ کے سکڑنے کے خطرے کو بڑھاتا ہے جس سے مختلف ذہنی امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
طبی جریدے دی لانسیٹ نیورولوجی میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 40 سال سے زائد عمر کے ہائی بلڈ پریشر کے شکار افراد کے دماغ صحت مند افراد کے مقابلے میں حجم کے لحاظ سے چھوٹے ہوتے ہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کی کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی اس تحقیق میں 502 افراد کا جائزہ لیا گیا جن کی عمریں اب 69 سے 71 سال کے درمیان ہیں۔
ان رضاکاروں کی خدمات اس وقت حاصل کی گئی تھیں جب ان کی عمریں 36 سال یا اس سے زائد تھی اور پھر عمر کی 7 ویں دہائی تک محققین نے رضاکاروں کے بلڈپریشر کو مختلف اوقات میں ریکارڈ کیا۔
محققین نے دریافت کیا کہ درمیانی عمر میں بلڈپریشر میں اچانک اضافے سے بعد کی زندگی میں دماغی صحت میں تبدیلیوں خصوصاً دماغ کے سکڑنے کا امکان بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق کے مطابق عمر کی تیسری یا چوتھی دہائی میں بلڈپریشر بڑھنے سے دماغ کی جانب جانے والی خون کی شریان کو نقصان پہنچنے کا امکان ہوتا ہے جو بعد ازاں فالج کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
درمیانی عمر کے افراد میں بلڈ پریشر دماغی تنزلی یعنی ڈیمینشیا اور دماغی افعال میں کمی کا خطرہ بھی ہوتا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کیوں ہوتا ہے۔
مگر تحقیق میں یہ ضرور واضح ہوگیا کہ 36 سال کی عمر میں بلڈپریشر کا شکار ہونا بعد میں دماغی صحت پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔