• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:10pm
  • LHR: Maghrib 5:04pm Isha 6:31pm
  • ISB: Maghrib 5:04pm Isha 6:33pm

اپوزیشن کی تنقید نظر انداز، صدر نے 2 نئے ای سی پی اراکین کا تقرر کردیا

اپوزیشن نے حکومت کی دونوں تقرریاں مسترد کردیں
—فائل فوٹو: اے پی
اپوزیشن نے حکومت کی دونوں تقرریاں مسترد کردیں —فائل فوٹو: اے پی

صدر مملکت عارف علوی نے خالد محمود صدیقی اور منیر احمد خان کاکڑ کو بالترتیب سندھ اور بلوچستان میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا رکن تعینات کردیا۔

وزارت پارلیمانی امور کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں دونوں ممبران کے تقرر کی تصدیق کی گئی۔

مزید پڑھیں: ’وزیر اعظم مشاورت کے بغیر الیکشن کمیشن اراکین کا انتخاب چاہتے ہیں‘

واضح رہے کہ سندھ اور بلوچستان سے ای سی پی کے ممبران عبدالغفار سومرو اور ریٹارئرڈ جسٹس شکیل بلوچ جنوری میں ریٹائرڈ ہوئے تھے اور قانون کے مطابق مذکورہ نشستوں پر 45 دن کے اندر تعیناتی لازمی ہوتی ہے۔

تاہم رواں برس مارچ میں وزیراعظم نے ہر دونوں نشستوں کے لیے تین تین نام قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو ارسال کیے تھے۔

عمران خان کی جانب سے بلوچستان کے لیے سابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج امان اللہ بلوچ، وکیل منیر کاکڑ، کاروباری شخصیت اور سابق قائم مقام صوبائی وزیر میر نوید جان بلوچ کے نام تجویز کیے گئے۔

وزیراعظم عمران خان نے سندھ الیکشن کمیشن میں خالی نشست کے لیے وکیل خالد محمود صدیقی، ریٹارئرڈ جسٹس فرخ ضیا شیخ اور ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل آف سندھ اقبال محمود کا نام تجویز کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 2 اراکین کی ریٹائرمنٹ کے باعث الیکشن کمیشن کا کام متاثر

بعدازاں 14 جون کو حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے مابین الیکشن کمیشن کے ممبران کی تعیناتی کا معاملہ کشیدگی اختیار کرگیا تھا، جس کے بعد 19 جون کو دوبارہ ناموں پر بحث و مباحثہ ہوا تھا لیکن کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

اپوزیشن نے تعیناتی مسترد کردی

اس سلسلے میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اس آئینی منصب پر تعیناتی کا کوئی قانونی مینڈیٹ حاصل نہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے الیکشن کمیشن پر بڑے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں جو پہلے سنگین الزامات کا سامنا کررہا ہے۔

ان کا کہا تھا کہ اپوزیشن اس اقدام کو مسترد کرتی ہے اور اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ باہمی مشاورت سے کیا جائے گا۔

اس صورتحال میں دستیاب آپشنز کے بارے میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ اس تعیناتی کو عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے جبکہ مذکورہ معاملہ پارلمنٹ میں بھی بحث کے لیے پیش ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب اپوزیشن کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اراکین الیکشن کمیشن کی تعیناتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت نے انتباہ دیا تھا کہ اگر اپوزیشن نے لچک نہیں دکھائی تو حکومت یک طرفہ طور پر فیصلہ کر لے گی۔

سید خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے فیصلے سے قبل اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا اور الیکشن کمیشن کی خالی نشستوں پر اپنے حمایتی تعینات کردیے۔

مزیدپڑھیں: الیکشن کمیشن اراکین کا تقرر 45 دن کی آئینی مدت میں نہ ہوسکا

ان کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی غیرقانونی ہے اور آئین سے متصادم ہے, ’آئین میں ایسی تعیناتی کی کوئی گنجائش نہیں‘۔

خیال رہے کہ 21 مارچ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’وزیر اعظم عمران خان سندھ اور بلوچستان سے الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری لازمی آئینی ضرورت کے برخلاف قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے مشاورت کے بغیر کرنا چاہتے ہیں'۔

شبہاز شریف نے ایک مراسلہ میں کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 213 اور 218 کے تحت وزیر اعظم قائد حزب اختلاف سے مشاورت کے بعد چیف الیکشن کمیشنر یا کمیشن کے اراکین کی تقرری کے لیے 3 نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجتے ہیں تاکہ ان پر بحث کے بعد ایک نام طے کر لیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024