’بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں، پاکستان بہت کچھ کرچکا‘
وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایٹمی صلاحیت کے حامل دو ہمسایہ ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہونے کے امکان کو رد کیا جبکہ ان کی بھارت کے خلاف تنقید میں مزید شدت آگئی۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اس وقت نئی دہلی میں جو حکومت ہے وہ جرمنی کے نازیوں جیسی ہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں: ’قوم تیار رہے، بھارت کسی بھی وقت جارحیت کر سکتا ہے‘
انہوں نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے، دنیا کو اس صورتحال سے خبردار رہنا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 80 لاکھ کشمیریوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں جبکہ خدشہ ہے کہ مقبوضہ وادی میں نسل کشی ہونے والی ہے۔
انٹرویو میں انہوں نے باور کروایا کہ اپنے دورہ امریکا کے دوران انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خطے کی انتہائی تباہ کن صورتحال کے خدشے سے آگاہ کردیا۔
بھارت کی ہٹ دھرمی سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بدقسمتی سے بھارت نے میری باتوں کو محض اطمینان کے لیے لیا، پاکستان بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: ’بھارت سے اب پچھلا قبضہ چھڑوانے کا وقت ہے‘
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی مقبوضہ وادی میں بھارتی حکومت کے یکطرفہ اقدام، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ بھارت سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت مقبوضہ وادی میں نسل کشی کر سکتا ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا کہ مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے اپنے مبصر مقبوضہ کشمیر بھیجے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی
خیال رہے کہ بھارت پر حکمرانی کرنے والی ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کردیا تھا۔
مذکورہ آرٹیکل کی منسوخی سے مقبوضہ جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہوگئی تھی جس کے ساتھ اس خطے کی حیثیت بھی دیگر بھارتی ریاستوں کی طرح ہوگئی۔
آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔
بعدازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔
مزید پڑھیں: ’کیا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ 50 سال بعد کردار ادا کرے گا؟‘
واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھادیے۔
سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘
خیال رہے کہ بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔
اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس بھی منعقد ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں