پاکستان کرکٹ کی کوچ کہانی
کوئی ورلڈ کپ ایسا نہیں گزرا کہ جس کے بعد پاکستان کرکٹ پر کلہاڑا نہ چلا ہو۔ کم از کم پچھلے 20 سال تو ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ ہر بار کبھی کپتان کی کپتانی گئی یا کوچ سمیت پورے عملے کی چھٹی ہوئی۔ اس بار بھی کہانی کچھ مختلف نہیں۔
ورلڈ کپ 2019ء میں سیمی فائنل تک رسائی کی ناکامی کے بعد ہیڈ کوچ مکی آرتھر سمیت پورا تربیتی عملہ فارغ ہوچکا ہے جبکہ کپتان سرفراز احمد کے سر پر بھی تلوار لٹک رہی ہے کہ کہیں ان کی قیادت بھی ایک فارمیٹ تک محدود نہ رہ جائے۔ سرفراز کو لاحق خطرات کی شدت کتنی ہے؟ اس سے قطع نظر فی الحال نئے ہیڈ کوچ کی ’تلاش‘ زور و شور سے جاری ہے۔
جب بھی ایسی کسی سرگرمی کی شروعات ہوتی ہے تو کرکٹ حلقے واضح طور پر 2 حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔
- ایک طرف پاکستان سے تعلق رکھنے والے کوچ کے حامی ہوتے ہیں، اور
- دوسری جانب ایک خاموش لیکن بااثر طبقہ جو غیر ملکی کوچ کی تقرری چاہتا ہے۔
اس بار بھی قومی کرکٹ کے کئی بڑے نام یہی کہہ رہے ہیں کہ کوچ مقامی ہونا چاہیے کیونکہ وہ ٹیم کے مزاج کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ پائے گا لیکن گزشتہ 2 دہائیوں میں کرکٹ بورڈ نے بارہا اس رائے کے برعکس فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ میں کسی غیر ملکی کوچنگ عملے کی شمولیت کی روایت 1999ء میں شروع ہوئی کہ جب پہلی بار انگلینڈ کے رچرڈ پائی بَس کو کوچنگ اسٹاف میں شامل کیا گیا تھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، 'میوزیکل چیئرز' کا ایسا کھیل شروع ہوا جو رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔
پائی بَس کے بعد جاوید میانداد آئے، پھر باب وولمر کا عہد شروع ہوا جو 2007ء میں ان کی زندگی کی آخری سانسوں تک چلتا رہا۔ انتخاب عالم، ڈیو واٹمور اور وقار یونس نے بھی مرحلہ وار کوچنگ کے فرائض سر انجام دیے۔ یہاں تک کہ 2016ء میں قرعہ فال مکی آرتھر کے نام نکلا کہ جو مِلے جُلے نتائج کے ساتھ بالآخر مایوس کن انداز میں باہر ہوگئے ہیں۔
اب سب کے سامنے ایک بڑا سوال ہے کہ پاکستان کا نیا ہیڈ کوچ کون ہوگا؟ کیا یہ عہدہ آسٹریلیا کے ٹام موڈی یا ڈین جونز کو ملے گا؟ یا نظرِ انتخاب نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے مائیک ہیسن پر پڑے گی؟ یا پھر مصباح الحق کا انتخاب کیا جائے گا، جی ہاں! ٹھنڈے دماغ اور دھیمے مزاج کے انہی مصباح الحق کا کہ جن کا نام سنتے ہی کئی لوگوں کو غشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔
نئے کوچ کی حیثیت سے مصباح الحق کا نام آخر سامنے کیسے آیا؟ اصل میں مصباح قومی کرکٹ ٹیم کے تربیتی کیمپ کے لیے ’کیمپ کمانڈنٹ‘ کی حیثیت سے طلب کرلیے گئے ہیں اور یہیں سے اس تاثر نے جڑ پکڑ لی ہے کہ مصباح الحق نہ صرف پاکستان کے آئندہ ہیڈ کوچ ہوں گے بلکہ شاید انہیں چیف سلیکٹر کا اضافی عہدہ بھی دیا جائے گا کیونکہ نیوزی لینڈ کی طرز پر ہیڈ کوچ کو ہی کھلاڑیوں کی سلیکشن کے حتمی اختیارات دینے کی باتیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
بلاشبہ مصباح الحق پاکستان کرکٹ تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں میں سے ایک ہیں، انہی کے دور میں پاکستان ٹیسٹ میں ورلڈ نمبر وَن بھی بنا لیکن سچ یہ ہے کہ مصباح الحق کوچنگ کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کوچ بننے کے لیے بنیادی معیارات پر پورا اترتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ قومی کرکٹ ٹیم کو ایسے تجربات سے دُور رکھا جانا چاہیے۔
مصباح الحق نے کچھ مہینے پہلے نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے لیول-2 کوچ ایجوکیشن کورس ضرور کیا ہے لیکن وہ یہ کورس کرنے والے اکیلے نہیں تھے بلکہ سعید اجمل، عمر گل، باسط علی بلکہ احمد شہزاد، عبد الرحمٰن اور اعزاز چیمہ سمیت کئی کھلاڑی تھے جنہوں نے اس کورس میں حصہ لیا۔ کوچنگ معاملات میں ناتجربے کاری کی وجہ سے ہی مصباح الحق کا نام سامنے آنا ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی حیران کن ہے، جبکہ مخالف حلقوں کے لیے سخت تشویش کا باعث۔
بلاشبہ مصباح الحق نے کئی بار خود پر تنقید کرنے والوں کو غلط ثابت کیا ہے اور وہ ان چند کھلاڑیوں میں سے ایک ہوں گے جنہوں نے تاثر کے بجائے کارکردگی کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ لیکن مصباح پر تنقید کرنے والا حلقہ بہت مضبوط ہے، جو 2007ء میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی فائنل میں شکست سے لے کر ان کی ریٹائرمنٹ تک ایک لمحے کے لیے خاموش نہیں بیٹھا۔ یہاں تک کہ مصباح کی بہت بڑی کامیابیاں بھی اس حلقے کے رویّے میں تبدیلی نہیں لاسکیں۔
اس لیے وہ ایسی کسی بھی تقرری کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں کریں گے اور مصباح کو رگڑنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر وہیں سے شروع کردیں گے، جہاں سے ٹوٹا تھا۔ اس مرتبہ تو ان کے پاس تنقید کے لیے مضبوط جواز بھی موجود ہیں اور وہ اس تقرری کے کمزور پہلوؤں پر خوب ہنگامہ بھی کھڑا کریں گے۔
لیکن، یہ سب ایک ’اگر‘ پر منحصر ہے یعنی ’اگر مصباح کو کوچ بنایا گیا تو‘۔ فی الحال تو سب سے ممکن صورت یہی نظر آ رہی ہے کہ پاکستان کسی غیر ملکی کوچ کا ہی انتخاب کرے گا اور اگر مصباح الحق کو نئے سیٹ اپ میں شامل کرنے کی ٹھان ہی لی گئی ہے تو انہیں چیف سلیکٹر جیسا کوئی دوسرا عہدہ دے دیا جائے گا، جس کے وہ واقعی اہل بھی ہیں۔
’نیا پاکستان‘ ایک سال کے عرصے میں ملک میں جو ’تبدیلی‘ لایا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کرکٹ بورڈ میں اس سے زیادہ ’تبدیلی‘ ممکن بھی نہیں۔ یعنی سیٹ اپ پرانے انداز ہی میں چلے، بس چہرے نئے ہوں۔ ہاں! اگر فیصلہ اس کے برعکس کیا گیا یعنی مصباح الحق کو ہی ذمہ داری سونپ دی گئی تو یہ بہت بڑا جُوا ہوگا، جس کے نتائج ’حیران کُن‘ بھی ہوسکتے ہیں اور ’تباہ کُن‘ بھی۔