• KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm
  • KHI: Zuhr 12:30pm Asr 4:12pm
  • LHR: Zuhr 12:01pm Asr 3:26pm
  • ISB: Zuhr 12:06pm Asr 3:26pm

ننگی فلموں کا ننگا سچ!

شائع August 24, 2019

وہ وقت گیا جب برسرِ روزگار ہونا خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا یا چلتے پھرتے شخص کو صحت مند تصور کیا جاتا تھا۔ آج اعداد و شمار کا دور ہے۔ آپ کی ثروت آپ کی گاڑی، موبائل اور آپ کے کریڈٹ کارڈ کے رنگ سے ماپی جاتی ہے۔

صحت کے بھی علیحدہ پیمانے ہیں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کس حد تک چاک و چوبند ہیں۔ یہاں تک کہ اب جنسی مباشرت بھی نمبروں میں تولی جاتی ہے۔ بازار میں آلات دستیاب ہیں جو آپ کے دل کی رفتار کا حساب لگاکر بتاتے ہیں کہ آپ نے کس نشست میں کتنا لطف اٹھایا۔

سیکس کے اس جدید تصور سے میری شناسائی اس وقت ہوئی جب میں نے ٹی وی کے لیے کام شروع کیا۔ ویڈیو ایڈیٹرز کے ساتھ طویل نشستوں کے دوران ایک بے تکلف ساتھی نے سرگوشی میں بتایا کہ اگر کیمرے چلانے سے متعلق تکنیکی معلومات اور ایڈیٹنگ سمجھنی ہے تو پورن دیکھو!

سارا بچپن منٹو، ممتاز مفتی، عصمت چغتائی کے ناول نصابی کتابوں میں چھپا کر پڑھنے والے کو یہ مشورہ اس وقت تو کافی دلچسپ لگا۔ شروع میں ہیجان بھی پیدا ہوا مگر جلد ہی دل اوبھ گیا۔ نہ کوئی چاندنی رات، نہ شمع کی روشنی میں کھانا، نہ راز و نیاز کی باتیں۔ رومانس کے بغیر جنسی تعلق مجھے زیادہ دیر ہضم نہ ہوا تو میں نے دیگر فلموں کو آزمایا۔

اٹلی، فرانس، برطانیہ، امریکا، کون سا ایسا ملک ہے جس کی کوئی بھی بڑی فلم میں نے چھوڑی ہو۔ کریدا تو معلوم ہوا کہ فلم کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کے لیے فلمسازوں نے تجربے کیے۔ جنس ایک ایسا موضوع تھا کہ کسی بھی خطے کا رہائشی اس سے خود کو جوڑ کر تسکین حاصل کر سکتا تھا۔

بس پھر کیا تھا۔ دھڑا دھڑ فلمیں بننا شروع ہوگئیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں مقبولیت کے بعد سرمایہ کاروں نے اس پر طبع آزمائی شروع کردی کہ فلم کی لاگت انتہائی معمولی تھی اور منڈی پوری دنیا۔

یکسانیت کو توڑنے اور کاروبار کو منافع بخش رکھنے کے لیے انسانی تخیل کی پرواز تک فلمیں بنائی گئیں۔ ساتھ ہی سرمایہ کاروں نے مصنوعی اعضائے مخصوصہ کو متوازی صنعت کے طور پر فروغ دینا شروع کردیا۔ پھر بتایا گیا کہ آپ کے اعضائے مخصوصہ کا اگر حجم بڑھا دیا جائے تو آپ صنف مخالف میں زیادہ مقبول ہوجائیں گے اور پھر پیوند کاری کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہوگیا جو آج بھی جاری ہے۔

بس پھر نت نئی مصنوعات ایجاد کی گئیں اور ان کو بیچنے کے نت نئے طریقے گھڑے گئے۔ تحقیق کے دوران میرا رابطہ چوٹی کے چند ان قلم کاروں سے ہوا جن کی بے باک تحریروں پر ایوارڈ یافتہ فلمیں تخلیق کی گئی تھیں۔ میں پُرتجسس تھا کہ آخر ان عظیم فنکاروں نے انسانی جبلت کے اہم ترین تقاضوں کی ہیّت کیوں تبدیل کردی۔ پھولوں کی جگہ ہنٹر اور انسانی لمس کی جگہ مشین کو دینے کی آخر کوئی تو وجہ ہوگی؟

میرے سوالوں کا جواب جب مجھے پھیکے فلسفے اور نفسیات میں دینے کی کوشش کی گئی تو میں نے ان بولڈ لکھاریوں کی زندگیوں کو کریدنا شروع کردیا۔

میرا رابطہ فرانس کی ایک مشہور لکھاری سے بھی ہوا جنہیں سیکس کے جدید رجحانات کی بانیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ کئی کتب کی مصنف ہیں اور ان کی آپ بیتی پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ مجھے ان سے ایک پُرجوش مہم جو اور متنوع قسم کی جنسی زندگی کی توقع تھی، لیکن میری امید کے برعکس ان کے نزدیک خوشحال زندگی تو میاں، بیوی اور بچے تھی۔

سیکس ٹوائز (کھلونے) بیچنے والی ایک مشہور کمپنی کی علمبردار کے منہ سے ازدواجی زندگی کی اہمیت کا سن کر مجھے اچنبھا لگا۔ صنعت سے وابستہ دیگر افراد بھی عام لوگ ہی نکلے۔ ہوسکتا ہے جنس کے نت نئے تجربوں کے پیچھے شاید کبھی کوئی مستند انسانی تجسس رہا ہو، لیکن مجھے تو فقط کمرشل ازم یا سادہ الفاظ میں شہرت اور پیسے کی ہوس ہی نظر آئی۔

عمر کے ساتھ ساتھ لغت معنی خیز ہوتی جاتی ہے۔ حسن و جمال کا مفہوم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ عقدہ کھلتا ہے کہ مرد بڑے کولہوں والی خواتین کی طرف اس لیے راغب ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے بچے جن سکتی ہیں۔ فربہ پستان اس لیے اسے لبھاتے ہیں کہ وہ اس کے بچے کو کافی دودھ فراہم کرسکتے ہیں اور ہونٹوں کی گلابی رنگت، نکھرا چہرہ، گھنی زلفیں، یہ سب عورت کی اچھی صحت کی غماز ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرسکتی ہے۔ دوسری طرف مرد کا اونچا لمبا قد دراصل عورت کو یہ ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اس کے اور اس کے بچے کے لیے شکار کرسکتا ہے۔

سیکس انسانی جبلت میں شامل ہے، اگر انسان اپنی نسل کی بقا کے لیے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا چاہتا ہے تو پھر اس سارے عمل میں مصنوعی اعضا، پیوند کاری یا پھر ایک رات کا تعلق کہاں فٹ ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم۔

بہت دیر میں سمجھ آتی ہے کہ انسان کو بچے پیدا کرنے کے علاوہ ان کی پرورش کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، جو زندگی کی اونچ نیچ میں اس کا ساتھ دے سکے۔ انسانی ماں کسی بھی دوسرے جانور کے برعکس 18 سال سے بھی زیادہ عمر تک اپنے بچے کی پرورش کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود پورن دنیا کی ایک بہت بڑی صنعت ہے۔

فحش فلمیں تخلیق کرنے والے پیسے کے لیے انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور دیکھنے والے تشنہ آرزو کی تکمیل کے لیے یہ سب دیکھتے ہیں، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جدید طب پورن کو نشہ قرار دیتی ہے۔ اگر کوئی حد سے زیادہ یہ فلمیں دیکھنے لگے تو اسے علاج کا اسی طرح مشورہ دیا جاتا ہے جس طرح شراب، چرس، کوکین یا کسی بھی دوسرے نشے کے عادی فرد کو دیا جاتا ہے۔

ایسے ممالک میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی تو سب کو ہو مگر اچھے بُرے کی تمیز نہ سکھائی گئی ہو، وہاں صورتحال گھمبیر ہوسکتی ہے۔ جب ناپختہ ذہن فحش مواد دیکھتے ہیں تو ان اداکاروں کا موازنہ خود سے کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پردہ سیمیں پر وجیہہ اور حسین نظر آنے والے میک اپ یا کیمرا تکنیک کا شاخسانہ ہوتے ہیں، یا پھر ایک خاص قسم کی جسامت رکھنے والے ان اداکاروں کو کتنی عرق ریزی سے تلاش کیا گیا ہے۔

جنس سے جڑی کھربوں ڈالر کی صنعت لوگوں تک اس تحقیق کو پہنچنے ہی نہیں دیتی کہ ایک اوسط انسان کے اعضا اس کے ساتھی کی جنسی تشفی کے لیے کافی ہیں۔ کیا معدوم ہوتی شادیوں کے پیچھے بڑی محنت سے تخلیق کی گئی یہی فحش فلمیں نہیں ہیں کہ دیکھنے والے اپنے جیون ساتھی کو ان کرداروں میں تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔

پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر سوال اور ہر آواز کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے، وہاں نئی نسل کو ڈرا دھمکا کر انٹرنیٹ سے دُور کرنے کی کوشش شاید زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ اگر بچوں کو گھر میں روکیں گے تو وہ اسکول، انٹرنیٹ کیفے یا دوستوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے بچوں کو مباشرت کے بارے میں بتاتے شرم آتی ہے تو کم از کم ہم انہیں یہ تو بتا سکتے ہیں کہ فحش مواد دراصل ایک جھوٹ ہے۔ پیسے کمانے کا ایک شرمناک ذریعہ ہے۔ وہ خیالی کرداروں اور تصوراتی خوبصورتی کی بجائے ایسا ساتھی تلاش کریں جو ان کے ساتھ زندگی بانٹ سکے۔

یاد رکھیے کہ فحش مواد انٹرنیٹ کا بس ایک چھوٹا سا پہلو ہے، جو اس کے تعمیری کردار کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ دنیا بھر کا تعلیمی مواد، تحقیق، انٹرنیٹ پر مفت میں میسر ہے۔ کیا آپ اپنے بچے کو اس سے محروم کرنا چاہیں گے؟

یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس سے بطور معاشرہ ہمیں سنجیدگی اور بردباری سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

عاطف خان

صاحب تحریر صحافی ہیں اور ملکی اور غیر ملکی اداروں کے لیے خدمات دے چکے ہیں۔ ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یہ ہے: atifjournalist@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (15) بند ہیں

MOHAMMAD ASIF RAO Aug 24, 2019 05:02pm
Very nice and tutorial article.
Fiaz Aug 24, 2019 08:00pm
Bht he zbrdst tehrir Allah apko slamt rakhe
Alla Ditta Aug 25, 2019 01:01pm
Excellent write up ! Well done.
Muhammad Asghar Aug 25, 2019 05:06pm
One of the best article on this bold issue which we don't want to discuss with our family. Should learn from it.
.MAHMOOD SHEIKH Aug 26, 2019 02:35pm
VERY WELL WRITTEN AND WITH PIN POINT ACCURACY. BUT I THINK OUR ISSUES REQUIRE THESE KIND OF LITERARY DOSES ON REGULAR BASIS. THIS MUST BE A PART OF DAILY LEARNING OF EVERY STUDENT AND TEACHING OBJECTIVES FOR TEACHERS
.MAHMOOD SHEIKH Aug 26, 2019 02:36pm
We have to go a very long way to educate ourselves
Rameay Aug 26, 2019 04:01pm
It is an industry that promotes addiction among its viewers that has no end.
asad ali Aug 26, 2019 04:21pm
very simple and well explained , illustrative article. i wish many people may read it.
asad ali Aug 26, 2019 04:44pm
Very Well Written and explained, illustrative article. the way author applied his research to this article is the essence to me.
Sara Aug 26, 2019 05:09pm
Well-written and thought provoking.
ARFAN Aug 26, 2019 05:29pm
FINALLY ,,GREAT WRITING
Najeeb Ahmed Aug 27, 2019 12:35pm
sensibly written.
Abdus Saboor Aug 27, 2019 02:13pm
Very well written, on a subject that need to addressed consistently in our society. Appreciated.
mirza adnan alam Aug 27, 2019 05:37pm
Good observation
rehan Aug 28, 2019 08:45pm
very good approach on sensitive topic

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2024
کارٹون : 20 دسمبر 2024