ننگی فلموں کا ننگا سچ!
وہ وقت گیا جب برسرِ روزگار ہونا خوشحالی کی علامت سمجھا جاتا تھا یا چلتے پھرتے شخص کو صحت مند تصور کیا جاتا تھا۔ آج اعداد و شمار کا دور ہے۔ آپ کی ثروت آپ کی گاڑی، موبائل اور آپ کے کریڈٹ کارڈ کے رنگ سے ماپی جاتی ہے۔
صحت کے بھی علیحدہ پیمانے ہیں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کس حد تک چاک و چوبند ہیں۔ یہاں تک کہ اب جنسی مباشرت بھی نمبروں میں تولی جاتی ہے۔ بازار میں آلات دستیاب ہیں جو آپ کے دل کی رفتار کا حساب لگاکر بتاتے ہیں کہ آپ نے کس نشست میں کتنا لطف اٹھایا۔
سیکس کے اس جدید تصور سے میری شناسائی اس وقت ہوئی جب میں نے ٹی وی کے لیے کام شروع کیا۔ ویڈیو ایڈیٹرز کے ساتھ طویل نشستوں کے دوران ایک بے تکلف ساتھی نے سرگوشی میں بتایا کہ اگر کیمرے چلانے سے متعلق تکنیکی معلومات اور ایڈیٹنگ سمجھنی ہے تو پورن دیکھو!
سارا بچپن منٹو، ممتاز مفتی، عصمت چغتائی کے ناول نصابی کتابوں میں چھپا کر پڑھنے والے کو یہ مشورہ اس وقت تو کافی دلچسپ لگا۔ شروع میں ہیجان بھی پیدا ہوا مگر جلد ہی دل اوبھ گیا۔ نہ کوئی چاندنی رات، نہ شمع کی روشنی میں کھانا، نہ راز و نیاز کی باتیں۔ رومانس کے بغیر جنسی تعلق مجھے زیادہ دیر ہضم نہ ہوا تو میں نے دیگر فلموں کو آزمایا۔
اٹلی، فرانس، برطانیہ، امریکا، کون سا ایسا ملک ہے جس کی کوئی بھی بڑی فلم میں نے چھوڑی ہو۔ کریدا تو معلوم ہوا کہ فلم کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنانے کے لیے فلمسازوں نے تجربے کیے۔ جنس ایک ایسا موضوع تھا کہ کسی بھی خطے کا رہائشی اس سے خود کو جوڑ کر تسکین حاصل کر سکتا تھا۔
بس پھر کیا تھا۔ دھڑا دھڑ فلمیں بننا شروع ہوگئیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں مقبولیت کے بعد سرمایہ کاروں نے اس پر طبع آزمائی شروع کردی کہ فلم کی لاگت انتہائی معمولی تھی اور منڈی پوری دنیا۔
یکسانیت کو توڑنے اور کاروبار کو منافع بخش رکھنے کے لیے انسانی تخیل کی پرواز تک فلمیں بنائی گئیں۔ ساتھ ہی سرمایہ کاروں نے مصنوعی اعضائے مخصوصہ کو متوازی صنعت کے طور پر فروغ دینا شروع کردیا۔ پھر بتایا گیا کہ آپ کے اعضائے مخصوصہ کا اگر حجم بڑھا دیا جائے تو آپ صنف مخالف میں زیادہ مقبول ہوجائیں گے اور پھر پیوند کاری کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہوگیا جو آج بھی جاری ہے۔
بس پھر نت نئی مصنوعات ایجاد کی گئیں اور ان کو بیچنے کے نت نئے طریقے گھڑے گئے۔ تحقیق کے دوران میرا رابطہ چوٹی کے چند ان قلم کاروں سے ہوا جن کی بے باک تحریروں پر ایوارڈ یافتہ فلمیں تخلیق کی گئی تھیں۔ میں پُرتجسس تھا کہ آخر ان عظیم فنکاروں نے انسانی جبلت کے اہم ترین تقاضوں کی ہیّت کیوں تبدیل کردی۔ پھولوں کی جگہ ہنٹر اور انسانی لمس کی جگہ مشین کو دینے کی آخر کوئی تو وجہ ہوگی؟
میرے سوالوں کا جواب جب مجھے پھیکے فلسفے اور نفسیات میں دینے کی کوشش کی گئی تو میں نے ان بولڈ لکھاریوں کی زندگیوں کو کریدنا شروع کردیا۔
میرا رابطہ فرانس کی ایک مشہور لکھاری سے بھی ہوا جنہیں سیکس کے جدید رجحانات کی بانیوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ وہ کئی کتب کی مصنف ہیں اور ان کی آپ بیتی پر ایک فلم بھی بن چکی ہے۔ مجھے ان سے ایک پُرجوش مہم جو اور متنوع قسم کی جنسی زندگی کی توقع تھی، لیکن میری امید کے برعکس ان کے نزدیک خوشحال زندگی تو میاں، بیوی اور بچے تھی۔
سیکس ٹوائز (کھلونے) بیچنے والی ایک مشہور کمپنی کی علمبردار کے منہ سے ازدواجی زندگی کی اہمیت کا سن کر مجھے اچنبھا لگا۔ صنعت سے وابستہ دیگر افراد بھی عام لوگ ہی نکلے۔ ہوسکتا ہے جنس کے نت نئے تجربوں کے پیچھے شاید کبھی کوئی مستند انسانی تجسس رہا ہو، لیکن مجھے تو فقط کمرشل ازم یا سادہ الفاظ میں شہرت اور پیسے کی ہوس ہی نظر آئی۔
عمر کے ساتھ ساتھ لغت معنی خیز ہوتی جاتی ہے۔ حسن و جمال کا مفہوم بھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ عقدہ کھلتا ہے کہ مرد بڑے کولہوں والی خواتین کی طرف اس لیے راغب ہوتا ہے کہ وہ آسانی سے بچے جن سکتی ہیں۔ فربہ پستان اس لیے اسے لبھاتے ہیں کہ وہ اس کے بچے کو کافی دودھ فراہم کرسکتے ہیں اور ہونٹوں کی گلابی رنگت، نکھرا چہرہ، گھنی زلفیں، یہ سب عورت کی اچھی صحت کی غماز ہیں کہ وہ زیادہ بچے پیدا کرسکتی ہے۔ دوسری طرف مرد کا اونچا لمبا قد دراصل عورت کو یہ ضمانت فراہم کرتا ہے کہ وہ اس کے اور اس کے بچے کے لیے شکار کرسکتا ہے۔
سیکس انسانی جبلت میں شامل ہے، اگر انسان اپنی نسل کی بقا کے لیے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرنا چاہتا ہے تو پھر اس سارے عمل میں مصنوعی اعضا، پیوند کاری یا پھر ایک رات کا تعلق کہاں فٹ ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم۔
بہت دیر میں سمجھ آتی ہے کہ انسان کو بچے پیدا کرنے کے علاوہ ان کی پرورش کے لیے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے، جو زندگی کی اونچ نیچ میں اس کا ساتھ دے سکے۔ انسانی ماں کسی بھی دوسرے جانور کے برعکس 18 سال سے بھی زیادہ عمر تک اپنے بچے کی پرورش کرتی رہتی ہے۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود پورن دنیا کی ایک بہت بڑی صنعت ہے۔
فحش فلمیں تخلیق کرنے والے پیسے کے لیے انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں اور دیکھنے والے تشنہ آرزو کی تکمیل کے لیے یہ سب دیکھتے ہیں، لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ جدید طب پورن کو نشہ قرار دیتی ہے۔ اگر کوئی حد سے زیادہ یہ فلمیں دیکھنے لگے تو اسے علاج کا اسی طرح مشورہ دیا جاتا ہے جس طرح شراب، چرس، کوکین یا کسی بھی دوسرے نشے کے عادی فرد کو دیا جاتا ہے۔
ایسے ممالک میں جہاں انٹرنیٹ تک رسائی تو سب کو ہو مگر اچھے بُرے کی تمیز نہ سکھائی گئی ہو، وہاں صورتحال گھمبیر ہوسکتی ہے۔ جب ناپختہ ذہن فحش مواد دیکھتے ہیں تو ان اداکاروں کا موازنہ خود سے کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ پردہ سیمیں پر وجیہہ اور حسین نظر آنے والے میک اپ یا کیمرا تکنیک کا شاخسانہ ہوتے ہیں، یا پھر ایک خاص قسم کی جسامت رکھنے والے ان اداکاروں کو کتنی عرق ریزی سے تلاش کیا گیا ہے۔
جنس سے جڑی کھربوں ڈالر کی صنعت لوگوں تک اس تحقیق کو پہنچنے ہی نہیں دیتی کہ ایک اوسط انسان کے اعضا اس کے ساتھی کی جنسی تشفی کے لیے کافی ہیں۔ کیا معدوم ہوتی شادیوں کے پیچھے بڑی محنت سے تخلیق کی گئی یہی فحش فلمیں نہیں ہیں کہ دیکھنے والے اپنے جیون ساتھی کو ان کرداروں میں تلاش کرتے رہ جاتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جہاں ہر سوال اور ہر آواز کو دھونس اور دھاندلی کے ذریعے دبا دیا جاتا ہے، وہاں نئی نسل کو ڈرا دھمکا کر انٹرنیٹ سے دُور کرنے کی کوشش شاید زیادہ کامیاب نہ ہوسکے۔ کیونکہ اگر بچوں کو گھر میں روکیں گے تو وہ اسکول، انٹرنیٹ کیفے یا دوستوں کے ساتھ مل کر یہ کام کرسکتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنے بچوں کو مباشرت کے بارے میں بتاتے شرم آتی ہے تو کم از کم ہم انہیں یہ تو بتا سکتے ہیں کہ فحش مواد دراصل ایک جھوٹ ہے۔ پیسے کمانے کا ایک شرمناک ذریعہ ہے۔ وہ خیالی کرداروں اور تصوراتی خوبصورتی کی بجائے ایسا ساتھی تلاش کریں جو ان کے ساتھ زندگی بانٹ سکے۔
یاد رکھیے کہ فحش مواد انٹرنیٹ کا بس ایک چھوٹا سا پہلو ہے، جو اس کے تعمیری کردار کے مقابلے میں بہت ہی محدود ہے۔ دنیا بھر کا تعلیمی مواد، تحقیق، انٹرنیٹ پر مفت میں میسر ہے۔ کیا آپ اپنے بچے کو اس سے محروم کرنا چاہیں گے؟
یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس سے بطور معاشرہ ہمیں سنجیدگی اور بردباری سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
تبصرے (15) بند ہیں