برطانوی خفیہ دستاویزات میں بریگزٹ سے غذائی قلت کے خدشے کا اظہار
برطانوی حکومت کی لیک ہونے والی خفیہ دستاویزات میں بریگزٹ سے غذائی اجناس کی قلت کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے 31 اکتوبر 2019کو تجارتی معاہدے کے بغیر یورپی یونین سے علیحدگی پر ملک بھر میں کشیدگی سے خبردار کیا گیا ہے۔
خبر ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا تھا کہ اگلے 10 ہفتوں میں بریگزٹ معاہدے پر اتفاق یا عدم اتفاق دونوں صورتوںمیں یورپین یونین سے علیحدگی کے لیے تیار ہیں۔
سنڈے ٹائمز میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کے خفیہ دستاویزات میں سابق وزیر اعطم تھریسامے کے معاہدے کے نتائج سے خبردار کیا گیا ہے کہ برطانیہ کی اچانک علیحدگی سے ملک میں تازہ غذائی اجناس کی فراہمی میں کمی آسکتی ہے۔
خفیہ دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ اس صورت حال میں دواؤں کی قلت کا سامنا ہوسکتا ہے جو 6 ماہ تک کافی ہوسکتی ہیں۔
خبرایجنسی اے پی کے مطابق برطانوی کابینہ کے دفتر نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بھی ردعمل دینے سے گریز کیا۔
مزید پڑھیں:31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائیں گے، بورس جانسن
یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے تیاریوں کے انچارچ اور وزیر مائیکل گوو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں اپنے بیان میں کہا کہ ‘یلو ہیمر نازک صورت حال ہے، بریگزٹ منصوبہ بندی کو آگے بڑھانے کے لیے گزشتہ تین ہفتوں میں نہایت اہم اقدامات کیے گئے ہیں’۔
خیال رہے کہ بورس جانسن سابق وزیر اعظم تھریسامے کے استعفے کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور 24 جولائی کو اپنے بیان میں کہا تھا کہ ‘ہم ایک نیا معاہدہ کریں گے، ایک بہتر معاہدہ ہوگا جس سے بریگزیٹ کے مواقع میں اضافہ ہوگا’۔
وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ’ ہم ملک کو متحرک کرنے جارہے ہیں، ہم 31 اکتوبر تک یورپی یونین سے علیحدہ ہوجائیں گے اور اس سلسلے میں ہم تمام مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم بہتر تعلیم، بہتر انفراسٹرکچر، مزید پولیس کے ذریعے خود اعتمادی کے فقدان اور منفی تاثر کا خاتمہ کریں گے۔
بورس جانسن نے کہا تھا کہ ہم اس حیرت انگیز ملک کو متحد کرنے جارہے ہیں اور ہم اسے مزید آگے لے کر جائیں گے۔
' بریگزٹ' ، کب کیا ہوا ؟
واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔
جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔
اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:برطانیہ کو بریگزٹ معاہدے کی تکمیل میں 6 ماہ تک کی توسیع مل گئی
مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔
بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیں:برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا
بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا۔
برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔
رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنماؤں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔
بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنماؤں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔
یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔
بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔