مسئلہ کشمیر سمیت دیگر معاملات پر اپوزیشن نے 'اے پی سی' طلب کرلی
اپوزیشن جماعتوں نے مسئلہ کشمیر، حکومت مخالف مشترکہ احتجاجی حکمت عملی اور چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کُل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) طلب کرلی۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق اپوزشین جماعتوں کی کُل جماعتی کانفرنس 19 اگست کو طلب کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق اے پی سی کی صدارت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کریں گے اور یہ کانفرنس 19 اگست کو صبح 11 بجے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ہوگی۔
مزید پڑھیں: سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک ناکام، اپوزیشن ٹوٹ پھوٹ کا شکار
اس کانفرنس میں حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کے سربراہان شریک ہوں گے جبکہ اے پی سی میں بھارت کی جانب سے آئین میں ترمیم کے بعد مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کی جائے گی۔
خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا اور مقبوضہ وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ساتھ ہی بھارت نے مقبوضہ وادی میں فوج کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے کرفیو نافذ کردیا تھا اور انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس سمیت تمام مواصلاتی نظام کو معطل کردیا تھا۔
بھارتی فورسز نے نہ صرف کرفیو نافذ کیا بلکہ اپنے حق خود ارادیت کے لیے احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر فائرنگ کرکے 6 کشمیریوں کو شہید جبکہ سیکڑوں کو زخمی اور گرفتار کیا تھا۔
دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ اے پی سی میں چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ناکامی کے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے گا اور اپوزیشن جماعتیں مشترکہ طور پر آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 26 جون کو اپوزیشن جماعتوں کی ایک کثیرالجماعتی کانفرنس ہوئی تھی، جس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں نے 9 جولائی کو ایوان بالا میں چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کروائی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ سینیٹ میں کام کے طریقہ کار کے رولز میں (چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین کو ہٹانے) کے لیے شامل رول 12 کے تحت صادق سنجرانی کو ہٹایا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام
ان تحاریک پر یکم اگست کو ایوان بالا کے اجلاس میں خفیہ رائے شماری کے ذریعے ووٹنگ ہوئی تھی، اپوزیشن کی جانب سے جب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی اس وقت قرارداد کی حمایت میں 64 اراکین ایوان میں کھڑے ہوئے تھے، تاہم خفیہ رائے شماری میں صرف 50 ووٹ نکلے۔
ایوان میں مطلوبہ ہدف تک ووٹ حاصل نہ ہونے پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا گیا جس کے ساتھ ہی چیئرمین سینیٹ اپنے عہدے پر برقرار رہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی تحریک عدم اعتماد بھی ناکام ہوگئی تھی۔
اپوزیشن جماعتوں کی تحریک کے ردعمل میں حکومت اور اس کے اتحادی سینیٹرز نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تھی۔