ایران: حجاب مخالف احتجاج پر سزا کاٹنے والی خواتین کی رہائی کا مطالبہ
اقوام متحدہ سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سماجی اراکین نے ایران میں حجاب لازمی قرار دینے سے متعلق قانون کے خلاف احتجاج کرنے والی 3 خواتین کی فوری رہائی کا مطالبہ کردیا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سماجی اراکین کی جانب سے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’خواتین کے عالمی دن (8 مارچ) کو ایران سے تعلق رکھنے والی 3 خواتین کی جانب سے تہران میٹرو پر پھول تقسیم کرنے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا‘۔
مزیدپڑھیں: ایران: ’حجاب‘ کے خلاف احتجاج پر 29 خواتین گرفتار
خیال رہے کہ تینوں خواتین عوامی گزرگاہ پر حجاب کے بغیر پھول تقیسم کررہی تھیں جبکہ 1979 کے انقلاب ایران کے بعد نافذ اسلامی قوانین کے تحت ایران میں خواتین کو اپنا سر اسکارف سے ڈھانپنا ضروری ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’سزا کاٹنے والی خواتین پُرامن طریقے سے حجاب کو لازمی قرار دینے کے قانون کے خلاف سراپا احتجاج تھیں، تاہم خواتین کو حجاب کرنے سے متعلق فیصلے کا حق حاصل ہونا چاہیے‘۔
دوسری جانب مقامی میڈیا کے مطابق طویل سزائیں پانے والی خواتین کی شناخت موجگن کیشاوریز، یاسمن آریانی اور منیرہ ارباشاہی کے نام سے ہوئی۔
خواتین کی رہائی کا مطالبہ کرنے والے سماجی حقوق کے ماہرین اقوام متحدہ کی ترجمانی نہیں کر رہے بلکہ ماہرین آزاد حیثیت میں مشترکہ طور پر ایران سے خواتین کی سزا ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی مظاہروں کے پیچھے جائز مطالبات یا غیر ملکی سازش؟
اس ضمن میں بتایا گیا کہ خواتین کو اپریل میں حراست میں لیا گیا اور 2 ہفتے تک زبردستی لاپتہ رکھا گیا جبکہ اعلامیے میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ ’ٹرائل کے دوران خواتین کو ان کے وکلا تک رسائی فراہم نہیں کی گئی‘۔
واضح رہے کہ عدالت نے عوامی گزر گاہ پر بغیر حجاب کے الزام میں گرفتار موجگن کیشاوریز کو 23 برس جبکہ یاسمین آریانی اور منیرہ ارباشاہی کو 16 برس قید کی سزا سنائی تھی۔
مزیدپڑھیں: ایران میں 20 افراد کو پھانسی دے دی گئی
انسانی حقوق کے ماہرین نے بتایا کہ ’تمام خواتین کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی، ریاست کے خلاف پراپیگینڈہ، اخلاقی کرپشن اور عصمت فروشی کو فروغ دینے کے الزام میں سزا سنائی تھی‘۔
ان کے مطابق موجگن کیشاوریزپر ’مقدس چیز کی توہین‘ کا اضافی الزام بھی لگایا گیا تھا۔
خیال رہے کہ رواں برس فروری میں تہران میں پولیس نے حجاب کے خلاف جاری سوشل میڈیا مہم کا حصہ بننے والی 29 خواتین کو عوامی گزرگاہ پر بغیر حجاب ہونے کی وجہ سے گرفتار کرلیا تھا۔
اس ضمن میں چیف پروسیکیوٹر محمد جعفر منتظری نے حجاب مخالف احتجاج کو ‘بچکانہ’ حرکت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ بعض غیر ملکی عناصر ایران میں لوگوں کو ‘ورغلا’ کر انتشار کی فضاء چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بلیئرڈ کی ایرانی خواتین کھلاڑیوں پر پابندی
اس معاملے پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر سامنے آنے والی 2 تصاویر میں خواتین کو روایتی لباس میں دیکھا جاسکتا تھا، جس میں انہوں نے ‘حقوقِ نسواں کی آزادی’ سے متعلق پلے کارڈز اٹھا رکھے ہیں۔
خواتین کی جانب سے اٹھائے گئے ان پلے گارڈز میں سے ایک پر درج تھا کہ ‘مجھے اپنے حجاب سے محبت ہے لیکن میں حجاب کو لازمی قرار دینے کی مخالف ہوں’۔