گِدھ! فطرت کے خاکروب
میرے لیے وہ دن بہت خوشی اور مسرت کا دن ہوگا جب کوئی نوجوان مجھ سے کہے کہ اس نے حقیقت میں گِدھ کو دیکھا ہے، اور یہ خوشی اس وقت دگنی ہوجائے گی اگر اس نے بانو قدسیہ کا راجا گِدھ بھی پڑھ رکھا ہو۔
جی ہاں اب گِدھ کراچی کی فضاؤں میں قصہءِ پارینہ ہوچکے ہیں اور بہتری کے اقدامات نہیں ہوئے تو یہ پورے پاکستان میں ناپید ہوسکتے ہیں۔
ایک صدی کا قصہ ہے کہ کچھ ہی دیر میں گِدھوں کے قافلے جوق در جوق وہاں اتر آتے۔ کراچی کی پرانی تصاویر میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ شہر میں موجود مینارِ خموشاں کی دیواریں گِدھوں سے بھری ہوئی ہیں۔
پارسی مذہب کے مطابق پانی، ہوا، سورج اور آگ، یہ وہ پاک اور مقدس عناصر ہیں جنہیں مردوں کو دفنا کر یا آگ میں جلاکر ناپاک نہیں کیا جاسکتا لہٰذا پارسی لوگ اپنے مردوں کو اونچے مینار یا پہاڑوں پر رکھ دیتے ہیں جنہیں گِدھ کھا جاتے ہیں۔ ان بلند مقامات کو ٹاور آف سائلنس یا مینارِ خموشاں کہا جاتا ہے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور خصوصاً کراچی میں گِدھ اب ناپید ہوتے جارہے ہیں، جس کے باعث اب پارسی برادری کے لوگوں نے مجبوراً اپنی صدیوں پرانی رسم ترک کردی ہے اور اب زیادہ تر لوگ اپنے مردے دفنانے لگے ہیں۔
پاکستان میں گِدھوں پر اجل کے سائے منڈلارہے ہیں اور ان کی تعداد بتدریج کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بقائے ماحول کی عالمی انجمن نے انہیں اپنی بقا کے خطرات سے دوچار جانداروں کی سرخ فہرست (Red List) میں شامل کرلیا ہے۔
گِدھوں کی تعداد اگر کم ہورہی ہے تو بھلا اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو اکثر لوگ کرتے ہیں۔
تو ایسے تمام لوگوں کے لیے جواب ہے کہ فرق پڑتا ہے، بالکل فرق پڑتا ہے۔ گِدھوں کو قدرت نے کرہءِ ارض کی صفائی کا کام سونپا ہے، گویا وہ فطرت کے خاکروب ہیں۔ اب اگر صفائی کرنے والے نہیں ہوں گے تو ہمارے گھر یعنی زمین کا کیا حال ہوگا، یہ سمجھنا یقینی طور پر کسی کے لیے بھی مشکل نہیں۔
گِدھ صفائی میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور زمین کی بالائی پرت اور وسیع زمینی حصے کو صاف رکھتے ہیں۔ ان کا بنیادی کام یہ ہے کہ یہ مردہ اجسام کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلاو ممکن نہیں ہوسکتا اور یوں انسان اور جانور محفوط ہوجاتے ہیں۔
انتھراکس یا منہ اور کْھر سمیت دیگر بیماریوں سے مرنے والے اگر کھلی جگہوں یا ندی نالوں میں پڑے رہیں تو ان کے گلنے سڑنے سے ماحول میں تعفن اور دیگر جراثیم پیدا ہوتے ہیں، لیکن قدرت نے اس سے بچاؤ کا بندوبست گِدھ کی صورت میں پیدا کیا ہے جو ان مردہ جانوروں کو کھاکر ماحول کی بالیدگی کا کام کرتے ہیں۔
گِدھ مردہ اجسام سے پھیلنے والی آلودگی سے زمین اور سمندروں کو صاف رکھتے ہیں۔ سوچیے کہ اگر گِدھ مردہ جان دار نہ کھائیں تو ماحول کتنا متعفن اور آلودہ ہوجائے گا؟
دنیا میں گِدھوں کی 23 انواع پائی جاتی ہیں جن کی نئی اور پرانی دنیا کے گِدھوں میں درجہ بندی کی گئی ہے۔ نئی دنیا کے گِدھ (7 انواع) مغربی نصف کرہ (جنوبی کینیڈا سے لے کر برِاعظم جنوبی امریکا کے آخری سرے تک) میں پرانی اور نئی دنیا کے گِدھ (16 انواع) افریقہ، یورپ اور ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔
یہ گِدھ انٹارکٹیکا اور سمندروں کے علاوہ ہر برِاعظم میں پائے جاتے ہیں۔ نئی اور پرانی دنیا کے گِدھ آپس میں قرابت دار نہیں ہیں لیکن ان کو اجتماعی طور پر گِدھ ہی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ بظاہر آپس میں مشابہت رکھتے ہیں اور یہ باور کیا جاتا ہے کہ مردار جانوروں کو کھانے کے حوالے سے آپس میں ارتقائی طور پر قرابت دار ہیں۔
جنوبی ایشیا میں گِدھوں کی 9 انواع ملتی ہیں، جن میں 8 پاکستان میں دستیاب ہیں۔ گِدھوں کی 9 انواع میں سے 4 انواع کو آئی یو سی این ریڈ لسٹ میں انتہائی خطرات کی زد میں موجود انواع میں شامل کیا گیا ہے، یعنی مشرقی سفید پشت، لمبی چونچ، نازک چونچ اور سرخ سر والا گِدھ۔
نئی دنیا کے گِدھ اپنا شکار سونگھ کر جبکہ پرانی دنیا کے گِدھ اپنا شکار اپنی بصارت کی بنا پر تلاش کرتے ہیں۔ گِدھ خود شکار نہیں کرتے بلکہ مردہ جانوروں کو کھا کر اپنا گزارا کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ گِدھ ایک ہفتے تک بھوکے رہ سکتے ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ گِدھ مردہ اجسام کھا کر اپنا گزارا کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ انتہائی صاف ستھرے ہوتے ہیں۔
گِدھ جنوبی ایشیائی تہذیب و ثقافت اور رسوم کا ایک حصہ ہیں۔ کچھ گِدھ مسلسل 6 گھنٹے تک ہوا میں سبک رفتاری سے اُڑ سکتے ہیں اور ان کی مدت حیات تقریباً 38 سال (حالت اسیری میں 42 سال) تک ہوسکتی ہے۔ کیلیفورنیا کا گِدھ آزاد حالت میں 60 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔
آئی یو سی این کے ایک حالیہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ ایک اکیلے گِدھ کی قدر و قیمت آلائشوں کو ٹھکانے لگانے میں اس کے خصوصی کردار کے حوالے سے 10 لاکھ 93 ہزار 931 پاکستانی روپے سے لے کر 24 لاکھ 91 ہزار 208 پاکستانی روپوں تک ہے۔ (یہ اعداد و شمار چند سال پرانے ہیں، اور یہ عین ممکن ہے کہ اب یہ قدر مزید بڑھ چکی ہوگی۔
گِدھوں کی کم ہوتی تعداد کی ایک بڑی وجہ جانوروں میں ڈیکلوفینک سوڈیم نامی دوا کا استعمال ہے۔ یہ دوا مویشیوں کو ہونے والے درد کو دُور کرنے کے لیے دی جاتی ہے۔ اس دوا کے اثرات مویشیوں کے جسم میں تادیر رہتے ہیں اور اگر مویشی مرجائے تو یہ دوا ان مردہ جان داروں کو کھانے والے گِدھوں پر بھی اثر کرتی ہے۔ ان کے گردے ناکارہ ہوجاتے ہیں اور بتدریج ان گِدھوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اگرچہ ڈیکلوفینک سوڈیم نامی دوا پر حکومت نے 2006ء میں پابندی لگا دی تھی لیکن یہ اب بھی دستیاب ہے اور استعمال کی جارہی ہے۔ یہی وہ دوا ہے جو گِدھوں کی نسل کے خاتمے اور ماحولیاتی توازن میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔
ماحول کے تحفظ اور فطرت کے توازن کے لیے گِدھوں کے اہم کردار کو دیکھتے ہوئے بقائے ماحول کی عالمی انجمن نے اس حوالے سے مختلف اقدامات کیے ہیں۔ آئی یو سی این اور بانھ بیلی کے تعاون سے نگر پارکر میں گِدھوں کے تحفظ اور افزائش کے حوالے سے ایک منصوبے (Vulture Conservation) پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کا پہلا فیز مکمل ہوچکا ہے اور اب دوسرے پر کام جاری ہے۔ اس منصوبے کو سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) کا مالی تعاون حاصل ہے۔
اس منصوبے کے پہلے فیز میں جو کام کیے گئے ان کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ گِدھوں کے تحفظ کے لیے قومی سطح کی حکمت عملی بنائی گئی جس پر عمل درآمد کی ذمے داری صوبائی اور قومی حکومت اور تحفظ ماحول کے لیے کام کرنے والے اداروں کی ہے۔
اب منصوبے کے اس دوسرے حصے میں مقامی آبادی میں اس حوالے سے شعور اور آگہی کے فروع کے ساتھ ساتھ جانوروں کی حفاظت کے لیے ویکسینیشن کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ لوگ مضر دوا ڈیکلوفینک سوڈیم استعمال نہ کریں اور اس حوالے سے انہیں متبادل دوائیں فراہم کی جارہی ہیں۔
تھرپارکر کا خطہ اس حوالے سے ایک خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہاں جانوروں اور پرندوں کو مارنے کا رواج بہت کم ہے لہٰذا بہت سے وہ جان دار جو ملک کے دیگر علاقوں میں نہیں پائے جاتے وہ اس خطہءِ زمین پر مل جاتے ہیں۔ مثلاً موروں کی بہت بڑی تعداد یہاں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اسی طرح تھرپارکر میں گِدھوں کی 6 انواع ملتی ہیں، جن میں لمبی چونچ والا گِدھ صرف تھر میں ملتا ہے۔ مقامی لوگ گِدھوں کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کا تحفظ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گِدھوں کی ایک بڑی تعداد تھرپارکر میں پائی جاتی ہے۔
حالیہ سروے کے مطابق اس وقت تھرپارکر میں گِدھوں کی تعداد 450 کے قریب ہے جبکہ ان میں سے 300 کے قریب صرف نگرپارکر میں موجود ہیں۔
چند سال پہلے ایک این جی او کے زیرِ اہتمام نگرپارکر میں ایک منصوبہ ’گِدھ ریسٹورنٹ‘ بھی شروع کیا گیا تھا جس میں گِدھوں کو مضر دوا سے پاک گوشت مہیا کیا جاتا تھا مگر ماہرین کے بقول گِدھ چونکہ لمبی اُڑانیں بھرتے ہیں اور دن میں تقریباً ایک سو کلومیٹر تک بھی پرواز کرجاتے ہیں لہٰذا انہیں کسی ایک جگہ صاف گوشت فراہم کرنے سے اس بات کو یقینی بنانا مشکل ہے کہ یہ پرندہ کہیں اور سے آلودہ گوشت نہیں کھائے گا۔
کنڈی (دیسی ببول) کے درخت گِدھوں کے گھونسلہ بنانے کے لیے پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہ خاصے بلند اور ان پر دیگر جانوروں کا چڑھنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اس درخت کے پتے بھی تھرپارکر کے جانوروں کی بہترین خوراک ہیں کیونکہ اس میں غذائیت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا کہا جاتا ہے کہ جتنے زیادہ کنڈی کے درخت ہوں گے تھر اتنا ہی زیادہ خوش حال ہوگا۔
تبصرے (17) بند ہیں