ایل او سی: بھارتی فوج کی فائرنگ سے شہید ہونے والے پاک فوج کے جوانوں کی تعداد 4 ہوگئی
پاک فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی نازک صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فائرنگ کی ہے، جس کے نتیجے میں 4 پاکستانی فوجی جوان شہید ہوگئے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کی نازک صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے بھارتی فوج نے ایل او سی پر فائرنگ کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارتی فوج کی فائرنگ سے نائیک تنویر، لانس نائیک تیمور اور سپاہی رمضان شہید ہوئے جبکہ پاک فوج نے موثر جواب دیتے ہوئے 5 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کردیا۔
مزید پڑھیں: ایل او سی پر جارحیت، بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر دفتر خارجہ طلب
ترجمان کے مطابق پاک فوج کی جوابی کارروائی میں متعدد بھارتی فوجی زخمی بھی ہوئے اور بنکرز کو نقصان پہنچا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق لائن آف کنٹرول پر وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے۔
بعد ازاں ترجمان پاک فوج نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں بتایا کہ ایل او سی پر بھارتی فورسز کی فائرنگ سے پاک فوج کا مزید ایک جوان شہید ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ سپاہی محمد شیراز، ایل او سی کے بٹل سیکٹر میں بھارتی فائرنگ کی زد میں آئے۔
ادھر وزیراعظم عمران خان نے لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال بھارتی فائرنگ کی مذمت کی۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق عمران خان نے بھارتی فائرنگ سے جام شہادت نوش کرنے والے پاک فوج کے جوانوں کے لیے دعا کی۔
خیال رہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے اور خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں یکطرفہ بھارتی اقدام کے بعد ایل او سی پر بھارتی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔
بھارتی فوج ایل او سی پر جدید ہتھیاروں کا استعمال کر رہی ہے جبکہ گزشتہ ہفتے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے شہری آبادی کو کلسٹر بموں سے بھی نشانہ بنایا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ 2 برس میں بھارت نے ایک ہزار 9 سو 70 مرتبہ سے زائد مرتبہ ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزری کی۔
شہریوں کی اموات
دوسری جانب بٹل سیکٹر میں بھارتی فورسز نے مشین گنز اور مارٹرز کا استعمال کرتے ہوئے صبح 5 بجے شیلنگ کا آغاز کیا۔
اس حوالے سے علاقے میں تعینات ایک پولیس افسر الیاس احمد نے ڈان کو بتایا کہ دوپہر تک یہ شیلنگ ختم ہوگئی تھی لیکن پھر دوبارہ 2 بجے پوری شدت کے ساتھ شروع ہوئی اور 'انہوں نے پورے علاقے پر مارٹر گولے برسائے'۔
پولیس افسر کے مطابق اس گولہ باری سے بٹل اور نتر گاؤں میں 45 سالہ منیب الرحمٰن ولد سائیں رشید اور 40 سالہ محمد عزیز ولد چوہدری کالا خان شہید ہوئے جبکہ بٹل گاؤں میں 60 سالہ قاری محمد نجیب زخمی ہوئے۔
سویلین اور ملٹری حکام کے مطابق ان دونوں سیکٹرز میں جنگ بندی معاہدے کی خلاف وزری نے رواں سال شہریوں کی اموات کو 31 تک پہنچادیا، جس میں 21 مرد اور 10 خواتین شامل ہیں جبکہ 14 فوجی بھی شہید ہوچکے ہیں۔
اس حوالے سے اسٹیٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (ایس ڈی ایم اے) کے ڈائریکٹر سعید قریشی نے ڈان کو بتایا کہ بھارتی فورسز کی شیلنگ سے رواں سال 91 مرد اور 68 خواتین سمیت 159 شہری زخمی ہوچکے ہیں۔
انہوں نے بتایا اب تک 36 مکانات اور 6 دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں جبکہ 239 گھر، 5 مویشیوں کے شیڈ، 2 اسکول، ایک صحت کا مرکز، ایک مسجد اور 5 گاڑیوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے جبکہ مکینوں کو اب تک 49 مویشیوں کو بھی کھونا پڑا ہے۔
بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر دفتر خارجہ طلب
بعد ازاں دفتر خارجہ نے لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ پر سخت مذمت کرتے ہوئے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر گوروو اہلووالیا کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے لیپا اور بٹل سیکٹر میں فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں نائیک تنویر، لانس نائیک تیمور اور سپاہی رمضان شہید ہوگئے۔
مزیدپڑھیں: ایل او سی: بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ، 8 سالہ بچہ شدید زخمی
ڈاکٹر محمد فیصل نے بھارتی فوج کی جانب سے 2003 کے جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کو ’خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیا۔
انہوں نے بھارت پر زور دیا کہ وہ 2003 کے جنگ بندی معاہدے کا احترام کرے اور اپنی افواج کو جنگ بندی پر مکمل عملدرآمد کی ہدایت کرے جبکہ لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری پر بھارت امن کو برقرار رکھے اور اقوام متحدہ کے امن مشن کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کردار ادا کرنے دے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت، اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین گروپ برائے بھارت اور پاکستان کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے کی اجازت دے۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال
اگر مقبوضہ کشمیر کی بات کی جائے تو 5 اگست کو بھارت نے ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعے وادی کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا۔
بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرتے ہوئے مقبوضہ وادی کو 2 حصوں (یونین ٹیرٹریز) میں تبدیل کردیا تھا اور وہاں کرفیو نافذ کردیا تھا، جس گزشتہ 12 روز سے نافذ ہے جس سے کشمیریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
یہی نہیں بلکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں موبائل، انٹرنیٹ سروس سمیت تمام مواصلاتی نظام معطل کردیا تھا جبکہ احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر فائرنگ کرکے انہیں شہید اور سیکڑوں کو گرفتار کرلیا تھا۔
پاکستان کے اقدامات
دوسری جانب پاکستان نے بھارت کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات معطل اور سفارتی تعلقات محدود کردیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں مذہبی آزادی پر قدغن، او آئی سی کی بھارت پر شدید تنقید
پاکستان نے یہاں موجود بھارتی ہائی کمشنر کو ملک سے واپس جانے کی ہدایت کی تھی جبکہ اپنے نامزد ہائی کمشنر کو نئی دہلی بھیجنے سے انکار کردیا تھا۔
اس کے علاوہ بھارت سے ثقافتی تعلقات کی معطلی کا اعلان بھی سامنے آیا تھا جبکہ 14 اگست کو یوم آزادی کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا تھا۔
ساتھ ہی پاکستان میں 15 اگست یعنی بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منایا گیا اور ملک بھر میں بھارتی اقدام کے خلاف احتجاج اور کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی گئی۔
تبصرے (1) بند ہیں