• KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm
  • KHI: Zuhr 12:34pm Asr 5:04pm
  • LHR: Zuhr 12:05pm Asr 4:37pm
  • ISB: Zuhr 12:10pm Asr 4:43pm

میڈیا پر نظر؟

شائع July 24, 2013

فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

دورکنی میڈیا کمیشن کی سفارشات بالکل بروقت ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ مشاورت کے ساتھ میڈیا کے تمام مروجہ قوانین و ضوابط پر نظرثانی کی جائے-

حقیقت تو یہ ہے کہ حال ہی میں مبصرین جن کی تیز نظریں میڈیا پر ہیں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ میڈیا ہمارے معاشرے پر ضرررساں اثرات مرتب کررہا ہے -

کسی بھی فورم میں جسکا پریس یا ٹیلی ویژن سے دور کا بھی تعلق ہو ہمیشہ میڈیا کی کج روی کوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے- ٹی وی پرزیادہ تنقید ہوتی ہے کیونکہ یہ سب کی نظروں / پہنچ میں ہوتا ہے اور عوام کی سوچ کو متاثر کر سکتا ہے-

صحافت میں اخلاقیات کا سوال بہت عرصے سے موضوع بحث بن اہوا ہے لیکن اس کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی- پرانی نسل کے لوگ جنہوں نے برسہابرس پریس کی آزادی کیلئے جدوجہد کی ہے فطری طور پر حکومت کو یہ اختیارات دینا نہیں چاہتے کہ وہ اظہار رائے کی آزادی پرپابندیاں عائد کرے کیونکہ یہ کام قوائد و ضوابط کے ذریعہ بھی ہو سکتا ہے-

اسی لئے صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیموں اور میڈیا مالکان کا مطالبہ ہے کہ یہ قواعد و ضوابط رضاکارانہ طور پر خود سے بنائے جائیں- اس کیلئے ضروری ہے کہ صحافی اعلیٰ احساس ذمہ داری سے کام لیں اور خود میڈیا ہاؤسز بھی اپنے بے اندازہ منافعوں سے دستبردار ہونے کیلئے تیار ہو جائیں- امید ہے کہ پاکستان پریس فاؤنڈیشن جو صحافتی اخلاقیات پر تحقیقات کر رہا ہے، نظر ثانی کے سلسلۂ عمل میں بھی مدد گارثابت ہوگا-

جو بات باعث تشویش ہے وہ یہ ہے کہ آجکل میڈیا جن برائیوں سے متاثر ہو رہا ہے انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے درست نہیں کیا جا سکتا- یہ کہا جاسکتا ہے کہ میڈیا وہی کچھ دکھا رہا ہے جو معاشرے میں ہو رہا ہے-

یہ بات اسلام آباد میں متعین اقوام متحدہ کے مشیر ڈاکٹر سلمان آصف نے بالکل بجا طور پر کہی تھی- "اگر معاشرے سے انصاف، درد مندی اور ایمانداری بالکل ختم ہوچکی ہے اورکمیونٹی کی فلاح وبہبود سے وہ قطعی لاتعلق ہوچکا ہے تو ایسی صورت میں کیا میڈیا خوبیوں کے اعلیٰ معیار کی مثال بن سکتا ہے؟"-

یہ موضوع اس فورم میں زیر بحث آیا جس کا اہتمام ڈاکٹروں کے ایک گروپ نے (جس میں زیادہ تر عورتیں تھیں) کیا تھا- فورم میں ٹیلی ویژن اسکرین پر دکھائے جانے والے پر تشدد مناظر پر شدید اعتراضات کئے گئے تھے-

ایک سینئر صحافی نے یہ جواز پیش کیا کہ میڈیا وہی کچھ دکھارہا ہے جو ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے- لیکن میں سمجھتی ہوں کہ خبروں کو دبائے بغیر بھی اسے عوام تک پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے سمجھ بوجھ اور احتیاط سے کام لینا ہوگا- کیا ضروری ہے کہ ہر خبرکو تصویروں کے ساتھ اور ایک ایسی آواز میں پیش کیا جائے جس میں خوف اور ہیجان شامل ہو؟

ایسا میڈیا جو معاشرہ کے اندیشوں کو ملحوظ خاطر نہ رکھتا ہو عوام کیلئے انتہائی ہولناک ثابت ہوسکتا ہے- ایسی صورت میں یہ ہیجان خیزی کی بدترین مثال بن سکتا ہے خاص طورپرٹیلی ویژن پر، جواب ہمارے میڈیا کے منظر نامے پرچھایا ہوا ہے-

چھپے ہوئے الفاظ کا شاندار دور کافی عرصہ ہوا گزر چکا- میڈیا بریکنگ نیوز میں اپنے حریفوں کو پیچھے اور ریٹنگ میں اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی ڈور میں لگ چکا ہے-

میڈیا منیجراخلاقیات، ہوشمندی اورتہذیب واخلاق کی دھجیاں بکھیررہے ہیں- پیشوں سے متعلق قواعد و ضوابط کا مذاق اڑایا جا رہا ہے- اگرچہ کہ کچھ استثنائی مثالیں بھی موجود ہیں، بعض لوگ اخلاقیات اور پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کو یقینا پیش نظر رکھنا چاہتے ہیں، یکن یہ افراد ہیں، ادارے نہیں-

ہمیں کمیشن کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے ایک غیرصحتمندانہ عمل کی جانب توجہ دلائی ہے- ان سب کی جڑ، تجارتی انداز فکر ہے جو ہماری قومی زندگی کے تمام شعبوں میں تباہی کا سبب بن گیا ہے- اگر حکومت کچھ ضابطۂ اخلاق لانا بھی چاہتی ہے تو اسے مالیاتی امورتک محدود ہونا چاہئے، موضوع اور مطالب پر نہیں-

حکومت کو چاہئے کہ وہ ایک بھرپور ضابطۂ اخلاق پر زور دے تا کہ موضوع اور اس کے مواد پر نظر رکھی جا سکے- میڈیا ہاؤسز اور صحافیوں کی تنظیموں کواسکا ذمہ دار قرار دیا جا سکے- انہیں چاہئے کہ وہ ایک شکایتی سیل اور الیکٹرونک میڈیا شکایتی کمیشن بھی بنائیں تاکہ عوام کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے-

متعلقہ ادارے ایسے قواعد و ضوابط بنا سکتے ہیں جسکے ذریعہ تمام میڈیا چینلز کیلئے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کو پورا کریں- مثلاً روزانہ صحت اور تعلیم سے متعلق پروگراموں کیلئے اوقات کا تعین کیا جائے- تعلیمی چینل کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے-

ہوسکتا ہے کہ ان پروگراموں کیلئے اشتہارات خاصی تعداد میں نہ ملیں لیکن جس میڈیا ہاؤس کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے وہ یہ تو کرسکتا ہے کہ تعلیم کو فروغ دینے کیلئے ایسے پروگرام ٹیلی کاسٹ کرے جسے اسکول تدریسی مقاصد کیلئے استعمال کرسکیں-

صحت کے موضوع پر چھوٹے چھوٹے دستاویزی پروگرام دکھائیں جنھیں دیکھکر ان مریضوں کو معلومات حاصل ہوں جنھیں گھنٹوں ڈاکٹروں کے کلینک میں کمرۂ انتظارمیں بیٹھنا پڑتا ہے-

ہفتے کے ساتوں دن چوبیس چوبیس گھنٹے کی نشریات کا مطلب ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے پاس بہت وقت ہے جسے وہ بے معنی گفتگو سے بھر کر اصل موضوعات کی قدر کو گھٹا دیتا ہے-

اب یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ صحافت میں پیشہ ورانہ قدرو قیمت کو بچانے کا وقت آگیا ہے جس کا پاکستانی میڈیا احمقانہ گرما گرمی کی گرفت میں آ کرشکار ہو گیا ہے- کمیشن اس بات پر بھی معترض ہے کہ میڈیا ہاؤسزغیرتربیت یافتہ رپورٹرزاوراینکرزکوملازمت دے رہے ہیں-

اگر میڈیا میں صرف میڈیا سائینس کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ملازمت پر رکھنا ضروری ہے تو پھر ابلاغ عامہ کے تعلیمی اداروں کے معیار تعلیم کو بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے-

ماضی میں چند ہی لوگ اس پیشہ میں داخل ہوتے تھے جنکو تربیت اورابلاغ عامہ کی تعلیم کی سہولت حاصل ہوتی تھی- اس کمی کو وہ پیشہ کے ساتھ وفاداری کے ذریعہ پورا کرتے تھے- زیادہ اہم بات یہ تھی کہ ، کام کے دوران ہی وہ اپنے سینئر ساتھیوں سے بہت کچھ سیکھتے تھے-

ان کی خاصی رہنمائی کی جاتی تھی- رہنمائی کا فائدہ یہ تھا کہ اس سے پیشہ میں تسلسل کا احساس رہتا تھا حالانکہ ٹکنولوجی میں کافی تبدیلیاں آرہی تھیں لیکن اس سے انسانی رشتے قائم ہوتے تھے جو صحافیانہ اقدارکوجنم دینے کیلئے ضروری ہیں-

افسوس اس بات کا ہے کہ رہنمائی کا سلسلہ آج نہیں رہا اور اگرچہ ابلاغ عامہ کی ٹکنولوجی نے صحافیوں کی زندگی تو نسبتاً آسان بنادی ہے لیکن ان میں انتشار پیدا کیا ہے- آج کے صحافی پہلے سے کہیں زیادہ تنہا ہو گئے ہیں جس سے ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

زبیدہ مصطفی

www.zubeidamustafa.com

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 اپریل 2025
کارٹون : 6 اپریل 2025