لاگت کم ہونے کے باوجود بھارت سے درآمدات نہیں کریں گے، صنعتکار
کراچی میں صنعت و تجارت کے نمائندگان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت کے بھارت سے تجارت پر پابندی کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک ہمارے لیے سب سے اہم ہے اور ہم بھارت سے تجارت ختم کرتے ہوئے اپنے خام مال کی مانگ کو پورا کرنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کریں گے'۔
ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری (ایس اے آئی) سلیم پاریکھ کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے پروسیسنگ ملز کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ انہوں نے بھارت سے ڈائی اور کیمیکلز کے 2 سے 3 ماہ پہلے آرڈر دے رکھے تھے جبکہ ان کی شپمنٹ گہرے سمندر میں ہے۔
سلیم پاریکھ، جو آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن کے صدر کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ بھارتی اشیا، چین اور کوریا سے 30 سے 35 فیصد تک سستی ہوتی ہیں جبکہ ان کی درآمد کا وقت بھی دیگر ممالک سے کم ہوتا ہے جبکہ ان کی شپمنٹ کی لاگت بھی دیگر سے کم ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں: وفاقی کابینہ نے بھارت سے تجارت معطل کرنے کی منظوری دے دی
ان کا کہنا تھا کہ 'ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز بھارتی برانڈز پر منحصر کرتی ہے تاہم اب انہیں چین اور کوریا کے برانڈز کے ساتھ کام کرنا ہوگا، اس کام میں تھوڑا وقت لگے گا مگر ملک کی خاطر ہم تمام چیلنجز کا سامنا کرنے کو تیار ہیں'۔
پاکستان ہوزائیری مینوفیکچررز اینڈ ایسپورٹرز ایسوسی ایشن (پی ایچ ایم ای اے) کے صدر جاوید بلوانی کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ بھارتی ڈائی اور کیمیکل پر منحصر کرتا ہے تاہم اس سے فی الوقت کوئی بڑا نقصان نہیں ہوگا کیونکہ زیادہ تر یونٹ کے پاس 3 سے 4 ماہ کا اسٹاک موجود ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے شک ہے کہ بھارت سے تجارتی پابندی کے بعد وہاں کی ڈائی اور کیمیکلز دبئی کے ذریعے ہمارے ملک آنی شروع ہوجائیں گی کیونکہ بھارتی اشیا چین اور دیگر ممالک سے 15 سے 20 فیصد سستی ہوتی ہیں'۔
چیئرمین ایف ایریا ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسرٹری (فباٹی) خورشید احمد کا کہنا تھا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ بھارت کے بجائے چین اور مشرقی ممالک سے درآمدات بڑھائے گا تاہم اس تبدیلی سے پیداواری کی لاگت میں اضافہ ہوگا کیونکہ وہاں کی قیمتیں اور شپمنٹ کی لاگت بڑھ جائے گی۔
پاکستان میں بھارت سے چائے بھی درآمد کی جاتی ہے تاہم چائے کے درآمد کار بھی اس پابندی سے پریشان نہیں۔
پاکستان ٹی ایسوسی ایشن (پی ٹی اے) کے چیئرمین شعیب پراچہ کا کہنا تھا کہ 'بھارت سے چائے درآمد کرنے کی شرح 5 فیصد ہے جسے ہم ویتنام اور دیگر افریقی ممالک سے پورا کرسکتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'بھارت سے چائے کی درآمد روکنے سے ہمارے لیے بڑے مسائل پیدا نہیں ہوں گے'۔
پاکستان کیمیکل ڈائز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے سابق صدر ہارون اصغر نے بتایا کہ امریکا نے چینی اشیا کی درآمد پر 15 سے 20 فیصد ڈیوٹی عائد کی ہے جبکہ چین نے اپنی کرنسی کو 15 سے 20 فیصد کم کردیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے بھارت کو تجارت میں حاصل ترجیحی سہولت ختم کردی
ان کا کہنا تھا کہ 'ان فیصلوں کو اثر عالمی مارکیٹوں میں نظر آرہا ہے'۔
ہارون اصغر، جو کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بھی صدر رہ چکے ہیں، کا کہنا تھا کہ امریکی اقدام کے بعد چینی ڈائی اور کیمیکلز کی قیمتیں عالمی منڈی میں 30 سے 40 فیصد تک کم ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'ایسی صورتحال میں ڈائی اور کیمیکل کے درآمدکار کے پاس چینی اشیا بہترین متبادل ہیں'۔
جوڑیا بازار میں بھارتی اشیا کی موجودگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'مصنوعی زیورات، کاسمیٹکس، صابن، فیس واش وغیرہ دیگر ذرائع سے ہماری مارکیٹ تک پہنچتی ہیں'۔
خیال رہے کہ چند تجارتی اداروں کی جانب سے بھارتی اشیا کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے تاہم یہ بات واضح رہے کہ اس سے قبل پلوامہ حملے کے بعد بھی تاجروں نے اسی طرح کے اعلانات کیے تھے تاہم بھارتی اشیا کی فروخت تب بھی جاری رہی تھی۔
آل کراچی تاجر اتحاد (اے کے ٹی آئی) کے چیئرمین عتیق میر کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن اپنے اراکین کو قانونی و اسمگل شدہ بھارتی اشیا کو اپنی دکانوں سے ہٹانے اور حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے زور دے رہی ہے۔
آل سٹی تاجر اتحاد ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری محمد احمد شمسی کا کہنا تھا کہ تاجر ملکی مفاد میں بھارتی اشیا ترک کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
انہوں نے حکومت سے بھارتی اشیا کی دبئی کے ذریعے دبئی کا ہی ٹیگ لگا کر آمد پر نوٹس لینے کی بھی اپیل کی۔