• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:14am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:41am Sunrise 7:10am

سارے کام ہمیں ہی کرنے ہیں تو حکومت کیا کرے گی، سپریم کورٹ

شائع August 9, 2019
سپریم کورٹ میں کراچی سے متعلق مختلف معاملات زیر غور آئے—فائل فوٹو : ریڈیو پاکستان
سپریم کورٹ میں کراچی سے متعلق مختلف معاملات زیر غور آئے—فائل فوٹو : ریڈیو پاکستان

سپریم کورٹ نے کراچی میں تجاوزات، زمین کی الاٹمنٹ، سرکلر ریلوے اور دیگر معاملات سے متعلق سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سارے کام ہم نے کرنے ہیں تو حکومت کیا کرے گی، ہم چیف جسٹس کو بول دیتے کہ وہ حکومت کے کام کے لیے عدالتیں شروع کردیں۔

عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجادعلی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے کراچی سرکلر ریلوے، تجاوزات ہٹانے کے معاملے اور شہر قائد کےمختلف معاملات پر سماعت کی جبکہ ایک اجلاس بھی منعقد ہوا۔

'زلزلہ آیا تو سی بریز عمارت گر جائے گی' دوران سماعت کراچی میں ایم اے جناح روڈ پر واقع سی بریز پلازہ کو خطرناک قرار دینے کا معاملہ زیرغور آیا، جس میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) اور کنٹونمنٹ بورڈ نے رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کر لیا گیا ہے، ساتھ ہی ایس بی سی اے نے عمارت کو خطرناک قرار دیتے ہوئے بتایا کہ عمارت زلزلے کے قواعد اور ضوابط کے مطابق نہیں ہے، اگر زلزلہ آیا تو عمارت گر جائے گی۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اپنا پینل تشکیل دے دیا ہے، ایس بی سی اے کے اپنے انجینیئرز معائنہ کریں گے۔

مزید پڑھیں: کے الیکٹرک، ابراج گروپ کیلئے سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے، سپریم کورٹ

تاہم اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ عمارت کو بنانے کی اجازت کس نے دی، تفصیلات کہاں ہیں، ساتھ ہی عدالت نے نامکمل رپورٹ پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ اطمینان بخش رپورٹ نہ دینے پر کراچی کنٹونمنٹ پر عدم اطمینان کیا۔

جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ نیسپاک بتائے عمارت خطرناک ہے یا نہیں، نیسپاک کا عمارت کا معائنہ کرنے کا کیا طریقہ کار ہے، پاکستان انجنیئرنگ کونسل کیا معاونت کرسکتا ہے، اسٹرکچر کے معائنہ کے لیے اچھا پینل تشکیل دیا جائے، عدالت نیسپاک اور پاکستان انجنیئرنگ کونسل کا مشترکہ پینل بنا دیتی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے نیسپاک اور پاکستان انجئیرنگ کونسل کے تین ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنانے کی ہدایت کردی۔

عدالت نے حکم دیا کہ نیسپاک، پاکستان انجئیرنگ کونسل کے تین ماہرین سی بریز کا مکمل جائزہ لیں جبکہ کنٹونمنٹ بورڈ بلڈنگ کے معائنے میں تمام معاونت فراہم کریے اور سی بریز کا معائنہ کرکے 2 ماہ میں تفصیلی رپورٹ دی جائے۔

'آپ سب ملے ہوئے، بکاؤ لوگوں کو ہمارے سامنے مت لائیں'

عدالت میں سماعت کے دوران الہ دین پارک کے قریب 2 ایکڑ اراضی قطری کو الاٹ کرنے سے متعلق معاملہ بھی زیرغور آیا۔

اس موقع عدالت نے احتساب کے قومی ادارے (نیب) کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سخت برہمی کا اظہار کیا۔

نیب کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قطری کو الاٹ کی گئی زمین رفاہی پلاٹ نہیں ہے، شکایت کنندہ نے ایسی کوئی دستاویزات بھی پیش نہیں کیں، جس سے معلوم ہو کہ یہ رفاہی پلاٹ ہے۔

اس پر جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ آپ سب لوگ ملے ہوئے ہیں، چئیرمین نیب سے رپورٹ طلب کی تھی آپ نے تفتیشی افسر سے بنوا لی، ہم یہ رپورٹ مسترد کرتے ہیں، آپ لوگ جھوٹ مت بولیں یہ سب لوگ جیل جائیں گے۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ بکاؤ لوگوں کو ہمارے سامنے مت لائیں، کتنے لوگ پیدا ہوں گے ہمارا ملک چلانے کے لیے، ایک غیر ملکی یو اے ای کے باشندے کو ہمارے ملک میں کیسے زمین الاٹ ہوسکتی ہے، اس غیر ملکی کی ہمارے ملک کے لے کیا خدمات ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ایک سعودی جنرل کو بھی ڈیفنس میں زمین الاٹ کردی گئی تھی، ہم نے اسے منسوخ کیا، ساتھ ہی کہا کہ مت کریں ایسا، آپ لوگوں نے ملک کو کس حال میں پہنچادیا ہے، ہمیں جھوٹی رپورٹس مت دیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن جاری رکھنے کا حکم

عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہاں سب ملے ہوئے ہیں بورڈ آف ریونیو والے بھی ملے ہوئے ہیں، ساتھ ہی نیب کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ رپورٹ ہم ریکارڈ پر رکھ لیں؟

ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ رپورٹ میں یہ تو بتایا ہی نہیں گیا کہ 2 ایکڑ زمین کس قانون کے تحت غیر ملکی کو الاٹ کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ نیب کے تفتیشی افسر کی رپورٹ قابل قبول نہیں ہے، چیئرمین نیب 2 ہفتوں میں تازہ رپورٹ پیش کریں۔

'چیف جسٹس کو بول دیتے ہیں، وہ حکومت کے کام کیلئے عدالتیں شروع کردیں'

دوران سماعت کے ایم سی اور کے الیکٹرک کے بجلی کی بل کی ادائیگی کا معاملہ بھی آیا، جہاں میئر کراچی کی جانب سے فنڈز اور اختیارات کا معاملہ اٹھایا گیا۔

اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ قانون کے مطابق کے ایم سی فنڈز اور میئر کراچی کو اختیارات ہیں، جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ دونوں ملک کر دو ہفتوں میں نمٹائیں ورنہ عدالت فیصلہ کرے گی۔

عدالتی ریمارکس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عدالت چاہے تو حکم جاری کرے، جس پر سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ سارے کام ہم نے کرنے ہیں تو حکومت کیا کرے گی، ہم چیف جسٹس کو بول دیتے کہ وہ حکومت کے کام کے لیے عدالتیں شروع کردیں۔

بعد ازاں عدالت نے سندھ حکومت کو معاملے کو نمٹانے کے لیے 2 ہفتوں کی مہلت دے دی۔

کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی بہت مشکل ہے، سندھ حکومت

سماعت کے دوران کراچی سرکلر ریلوے اور شہر کو اصل حالت میں بحال کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آیا، اس پر حکومت سندھ نے اپنی رپورٹ جمع کروادی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی سرکلر ریلوے سی پیک کا حصہ ہے، وفاقی حکومت، سندھ اور چینی حکام میں سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے۔

سندھ حکومت کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرانی سرکلر ریلوے کی بحالی بہت مشکل ہے، اس کے ٹریک پر گرین لائن کا ٹریک بن چکا ہے، جس کے باعث کے سی آر کا ٹریک بنانے کے لیے ایک بڑا موڑ بنانا پڑے گا جو ناقبل عمل ہوگا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پرانے ٹریک کی بحالی کے بجائے نیا سی پیک منصوبہ سودمند ہوگا، نئے منصوبے سے 6 لاکھ لوگ سفر کریں گے، سی پیک منصوبے میں کراچی کے لیے ماس ٹرانزٹ بھی ہے۔

عدالت میں پیش کردہ رپورٹ کے مطابق موجودہ موجودہ سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 24 گیٹس ہیں، لہٰذا پرانے سرکلر ریلوے ٹریک کی بحالی سے 24 گیٹس بند ہو جائیں گے، ان گیٹس سے بڑی تعداد میں ٹریفک کا گزر ہوتا ہے۔

صوبائی حکومت کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹریک کی بحالی سے 24 مقامات پر ٹریفک کی روانی بند ہوجائے گی، جس سے بڑا بحران پیدا ہوگا۔

علاوہ ازیں صوبائی محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات کے افسران سے عدالتی چیمبر میں شہر کی اصل حالت میں بحالی پر رپورٹ پیش کی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ جنوری میں وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اس کانفرنس میں آرکیٹیکچر، شہری منصوبہ ساز انجنیئر اور دیگر ماہرین نے شرکت کی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ شہر کو خوبصورت بنانے اور اصل حالت میں بحالی کے متعلق کمیٹیز تشکیل دی گئی ہیں جبکہ اس سلسلے میں دوسری کانفرنس آگست کے پہلے ہفتے میں شیڈیول تھی،تاہم بارشوں کے باعث دوسری کانفرنس ملتوی کردی گئی۔

جسٹس گلزار احمد سمیت بینچ کو دی گئی بریفنگ میں سندھ حکومت کے افسران کی جانب سے وفاق سے فنڈز کی عدم فراہمی کا معاملہ اٹھایا گیا۔

صوبائی افسران نے کہا کہ فنڈز کی عدم فراہمی کے باعث کئی منصوبے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں جبکہ کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنانے پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی میں سیاحتی مقاصد کیلئے ٹرام چلانے کا حکم

تاہم 'سی پیک کا حصہ بنانے کے باوجود وفاق اور سندھ کے درمیان اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، پہلے وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان معاملات طے ہوں گے بعد میں پاکستان اور چین کے درمیان معاہدہ ہوگا،اس تمام کام کو مکمل کرنے میں وقت درکار ہے'۔

افسران نے بتایا کہ منصوبوں کے آغاز اور تکمیل میں تاخیر وفاق کےعدم تعاون کے باعث ہے۔

اس پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا ہونا ہے، وہ چھوڑیں اب تک کیا ہوا ہے وہ بتائیں۔جس پر سندھ حکومت کے افسران نے بتایا کہ سرکلر ریلوے کی 38 ایکڑ زمین خالی کرالی گئی، اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیے گئے کام کی ویڈیوز پیش کی جائیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ جو بھی اقدامات کیے جائیں سلائیڈ اور نقشے کی صورت میں رپورٹ دی جائے، ویڈیوز کے بعد میں گراونڈ پر جاکر خود کام کا جائزہ لوں گا۔

بعد ازاں عدالت نے مزید سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کردی اور ساتھ ہی وفاقی سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری منصوبہ بندی کو طلب کرلیا جبکہ جنرل پاکستان کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت بھی کردی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024