’بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا‘
بھارت کی قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے مسلم اکثریت والے واحد خطے مقبوضہ کشمیر کو آئین میں حاصل خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایوانِ زیریں لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 370 کو ختم کررہی ہے۔
واضح رہے کہ بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی شہری نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں جبکہ یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔
یہ بھی پڑھیں: نئی دہلی: مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا صدارتی فرمان جاری
آئین کی اس دفعہ کو ہندو توا تنظیموں اور مودی کی ہندو قوم پرست بی جے پی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے، تاہم عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی صدارتی حکم نامے کے ذریعے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اس اقدام پر کشمیر سے تعلق رکھنے والے 2 اراکینِ پارلیمنٹ فیاض احمد میر اور نذیر احمد لاوے نے شدید احتجاج کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق احتجاج کے دوران مبینہ طور پر آئین کی دستاویز پھاڑنے کی کوشش کرنے پر دونوں اراکین کو ایوان سے باہر بھیج دیا گیا جس پر فیاض احمد نے احتجاجاً اپنا کرتا پھاڑ ڈالا۔
اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے ردِ عمل دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھارتی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے، حکومت کا آئین کی دفعہ 370 ختم کرنے کا یکطرفہ فیصلہ غیر قانونی، غیر آئینی ہے جس سے بھارت کشمیر پر قابض ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ برصغیر کے لیے اس اقدام کے نتائج تباہ کن ثابت ہوں گے، وہ (بھارتی حکومت) مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو دہشت زدہ کر کے یہ علاقہ حاصل کرنا چاہتی ہے، بھارت کشمیر سے کیے گئے وعدوں میں ناکام ہوگیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’دوستوں اگر ہم بچ نہ سکیں تو باتوں، دعاؤں میں یاد رکھنا‘
دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیراعلیٰ کشمیر عمر عبداللہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت کا یہ یک طرفہ فیصلہ کشمیری عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے دور رس سنگین نتائج مرتب ہوں گے جو ریاست کے عوام کے خلاف جارحیت ہے جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں نے خبردار کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے خاموشی سے اس تباہ کن فیصلے کے لیے فضا ہموار کی، بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا جبکہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے نمائندے ہم سے جھوٹ بولتے رہے کہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں لیا جارہا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ نظر بند
ان کا کہنا تھا کہ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب کشمیر کو ایک گیرژن میں تبدیل کردیا گیا اور کشمیری عوام کو جمہوری آواز دینے والے ہم جیسے لوگ قید میں ہیں اور ایک لاکھ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا یہ فیصلہ یک طرفہ، غیرقانونی اور غیر آئینی ہے اور ان کی جماعت اسے چیلنج کرے گی، ایک طویل اور مشکل لڑائی لڑنی ہے جس کے لیے ہم تیار ہیں۔