چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک ناکام ہونے پر صحافیوں کا ردعمل
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے پر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے اسے اپوزیشن کے لیے’مایوس کن‘ قرار دے دیا۔
خیال رہے کہ سینیٹ میں اپوزیشن کے 67 ارکان موجود تھے جس میں سے 64 سینیٹرز نے ووٹ ڈالے۔
صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی فتح 53 ووٹ سے ممکن تھی لیکن جب خفیہ رائے شماری کا اعلان ہوا تو اپوزیشن کو 3 ووٹ کی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں: چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تبدیلی کی تحاریک ناکام
اس ضمن میں صحافی مبشر لقمان نے سینیٹ میں اپوزیشن کی ناکامی کو مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے لیے بڑا صدمہ قرار دیا۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں طنز کیا کہ ’64 سینیٹرز نے کھانا کھایا مگر ووٹ نہیں دیا‘۔
سینئر صحافی اور تجزیہ نگار حامد میر نے سوشل میڈیا پر سینیٹ میں صادق سنجرانی کی کامیابی پر حاصل بزنجو کا ایک انٹرویو شیئر کیا۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی لیکن حاصل بزنجو نے 2 روز قبل انٹرویو میں کہا تھا کہ ’کوئی ہارس ٹریڈنگ‘ نہیں ہوگی۔
صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار مظہر عباس نے ٹوئٹ میں کہا کہ صادق سنجرانی کرکٹ کے ڈی ایل سسٹم کے تحت جیت گئے جبکہ انہیں حاصل بزنجو کے مقابلے میں کم ووٹ ملے۔
سید طلعت حسین نے قدرے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تو ان کے حق میں 64 ووٹ تھے، ایک گھنٹے کے بعد جب پاس ہونے کا وقت آیا تو 50 ووٹ رہ گئے۔۔۔ اسے کہتے ہیں جمہوریت، اس کو کہتے ہیں شفافیت‘۔
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین مانڈوی والا بچ گئے تاہم یہ تو واضح ہوگیا کہ پنکچر کس جماعت نے لگوائے ہیں۔
سینئر صحافی ندیم ملک نے بھی چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کو اپوزیشن کے لیے بڑا صدمہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس حقیقت کے برعکس کہ اپوزیشن اکثریت میں تھی لیکن خفیہ رائے شماری نے معاملے کا رخ بدل دیا۔
اس موقع پر صحافی ارشد شریف نے محض پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا کہ جس میں بلاول بھٹو نے صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے پر کہا تھا کہ ’ضیاالحق کے اوپننگ بلے بازوں کو شکست ہوئی، بلوچستان کو کامیابی ملی، وفاق جیتا، مبارک باد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی‘۔
صحافی انصار عباسی نے کہا کہ ’سنجرانی کے خلاف قرارداد عدم اعتماد کا ناکام ہونا مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے لیے بڑی ناکامی اور شرمندگی کا باعث ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دوسروں پر الزام لگانے کے بجائے اپنی اپنی جماعتوں کے اندر سے گند کو صاف کریں‘۔
تبصرے (1) بند ہیں