• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

’پہلے پارلیمانی سال میں قومی اسمبلی کی کارکردگی قابلِ ذکر نہیں رہی‘

شائع July 29, 2019
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے محض 12 یعنی 14 فیصداجلاس میں شرکت کی ہے—فائل فوٹو: اے پی پی
وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے محض 12 یعنی 14 فیصداجلاس میں شرکت کی ہے—فائل فوٹو: اے پی پی

اسلام آباد: 2018 کے انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی قومی اسمبلی میں پہلے پارلیمانی سال مکمل ہونے سے قبل آج (بروز پیر) آخری سیشن ہونے جارہا ہے۔

تاہم قانون سازی، بہتر طریقے سے ایوان کی کارروائی جاری رکھنے اور وزیراعظم کی حاضری کے حوالے سے کارکردگی کوئی خاص قابلِ ذکر نہیں رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 12 اگست کو قومی اسمبلی کی تشکیل کو ایک سال مکمل ہوگا جس میں 50 سے زائد سرکاری اور نجی بل اب بھی قائمہ کمیٹیوں میں زیر التوا ہیں۔

ایوان کے اصول و ضوابط کے مطابق ایک سال کے عرصے میں 130 دن قومی اسمبلی کے اجلاس ہونا لازمی ہیں تاہم موجودہ اسمبلی اپنے پہلے پارلیمانی سال میں اب تک 120 دن کے اجلاس ہی کرپائی ہے جس میں دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کے 3 روز بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی کی 36 قائمہ کمیٹیاں قائم، اراکین کے ناموں کا بھی اعلان

تاہم حقیقی طور پر قومی اسمبلی کے اجلاس 88 روز ہوئے کیوں کہ 120 دن میں سے 2 ورکنگ ڈیز کے درمیان آنے والی چھٹی کو بھی شامل کیا گیا ہے جبکہ اجلاس کی کارروائی مجموعی طور پر 263 گھنٹے اور 29 منٹ جاری رہی جس میں بجٹ سیشن کے 90 گھنٹے بھی شامل ہیں۔

علاوہ ازیں متعدد اجلاس ایوان میں بدنظمی کے سبب بھی متاثر ہوئے جبکہ کچھ مواقع پر اراکین آپے سے باہر ہوگئے اور ہاؤس کو آرڈر میں رکھنے میں ناکامی پر اسپیکر کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔

خاص طور پر گرفتار اراکین اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کرنے کے معاملے پر اپوزیشن کے احتجاج کے باعث اسپیکر کو سخت دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔

اس وقت 6 اراکین اسمبلی پولیس، نیب و دیگر قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی زیر حراست ہیں جن میں سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، شاہد خاقان عباسی اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 2 آزاد اراکین علی وزیر اور محسن داوڑ بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن اراکین کی کٹوتی کی تحاریک قومی اسمبلی میں مسترد

آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں ضمانت ملنے سے قبل قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھی کئی اجلاسوں میں پروڈکشن آرڈز جاری ہونے پر شریک ہوئے۔

قانون سازی

ایک سال کے عرصے میں قومی اسمبلی کے 12 سیشنز میں 10 بل منظور کیے گئے جس میں 10ویں آئینی ترمیم، فنانس ایکٹ 2019 اور 2 ضمنی فنانس بل بھی شامل ہیں جبکہ 2 بل ایسے بھی شامل ہیں جس کا مقصد نئی قانون سازی کے بعد رسمی طور پر پرانے قوانین کو منسوخ کرنا تھا۔

علاوہ ازیں اس میں 26ویں آئینی ترمیم بھی شامل ہے جس مں قبائلی اضلاع سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا، یہ بل 13 مئی کو محسن داوڑ نے پیش کیا تھا جو سینیٹ کی منظوری کے لیے زیر التوا ہے۔

قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق قائمہ کمیٹیوں میں زیرِ التوا 56 بلز میں سے حکومت کے 15 جبکہ نجی اراکین نے 41 بلز شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی اجلاس میں وزرا کی غیرحاضری، وزیراعظم سے جواب طلب

اسپیکر اسمبلی کی جانب سے سادگی مہم کے تحت قائمہ کمیٹیوں کے تمام اجلاس منسوخ کرنے سے بھی ان کے افعال متاثر ہوئے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی اس حوالے سے معترض ہیں۔

اس کے علاوہ موجودہ اسمبلی میں اسپیکر کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے لفظ ’سیلیکٹڈ‘ کے استعمال پر پابندی لگانے کی رولنگ پر ہنگامہ مچا رہا جس کا اپوزیشن اراکین نے اپنی تقاریر میں استعمال کر کے نہ صرف تمسخر اڑایا بلکہ تنقید بھی کی۔

وزیراعظم کی حاضری

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں وزیراعظم کی طویل غیر حاضری پر بھی اعتراض کیا جاتا رہا۔

عہدے پر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں وزیراعظم نے اعلان کیا تھا کہ وہ باقاعدگی سے نہ صرف اجلاس میں شرکت کریں گے بلکہ برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی طرز پر اراکین کے سوالوں کے جواب بھی دیں گے۔

تاہم حاضری کے ریکارڈ کے مطابق وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان نے محض 12 مرتبہ یعنی 14 فیصد اجلاس میں شرکت کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024