اچانک ہارٹ اٹیک سے موت کا باعث بننے والی وجہ سامنے آگئی
دیگر جانداروں کے برعکس انسانوں میں اچانک ہارٹ اٹیک کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کی اب تک کوئی واضح وجہ سامنے نہیں آسکی تھی، تاہم اب سائنسدانوں نے اسے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اچانک ہارٹ اٹیک کی وجہ ایک جین ہے جو انسانوں میں لاکھوں سال پہلے انسانی جسم میں ڈی ایکٹیویٹ ہوگیا تھا۔
امراض قلب کے دوران شریانیں سکڑ کر بلاک ہوجاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے ، شریانوں کے بلاک ہونے کے متعدد عناصر جیسے موٹاپا، فشار خون، تمباکو نوشی اور خون میں کولیسٹرول وغیرہ ہوتے ہیں، تاہم ہارٹ اٹیک کے 15 فیصد کیسز میں دریافت کیا گیا کہ ان افراد کو شریانوں کے مسائل کا سامنا ہی نہیں تھا۔
یہ اچانک اور بغیر کسی وجہ کے ہونے والے ہارٹ اٹیک دیگر جانداروں میں نظر نہیں آتے اور سائنسدانوں کے مطابق اس کی وجہ جانوروں میں موجود ایک سنگل شوگر مالیکیول نیو5 جی سی (اس کے کوڈز کو سی ایم اے ایچ کہا جاتا ہے) ہے، جو انسانوں میں نہیں ہوتا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ لاکھوں سال انسانوں کی ابتدا میں یہ جین انسانی جسم میں ڈی ایکٹیویٹ ہوگیا اور اس کی ایک ممکنہ وجہ ملیریا کے خلاف انسانی جسم کا ارتقا خیال کیا جارہا ہے۔
آج کے انسانوں میں اب بھی ملیریا کی اس مخصوص قسم کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے جس کا خطرہ جانوروں کو زیادہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے چوہوں میں سی ایم اے ایچ کو ڈی ایکٹیویٹ کیا تو ان جانوروں میں نیو5 جی سی کی بھی کمی ہوگئی اور ان میں اچانک ہارٹ اٹیک کا خطرہ 1.9 فیصد بڑھ گیا۔
محققین کے مطابق حالات اس وقت بدترین ہوگئے جب ان چوہوں کو بہت زیادہ سرخ گوشت کا استعمال کرایا گیا، جس کے نتیجے میں شریانوں کے بلاک ہونے کا خطرہ 2.4 گنا زیادہ بڑھ گیا، اس کی وجہ سرخ گوشت میں نیو5 جی سی کی مقدار بہت زیادہ ہونا ہے، جو کہ ایک دفاعی ردعمل کو حرکت میں لاتا ہے جس کا کام اس جین کو شناخت کرکے تباہ کرنا ہے، اس عمل کے دوران شریانوں میں ورم طاری ہوتا ہے اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ بڑھتا ہے۔
اگرچہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بہت زیادہ سرخ گوشت خون کی شریانوں کے امراض کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھا سکتا ہے، تاہم سپرفٹ اور تمباکو نوشی سے دور افراد میں بھی جینیاتی کمزوری موجود ہے، جو بغیر کسی وجہ ہارٹ اٹیک کا شکار بناسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز میں شائع ہوئے۔