حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع
لاہور کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں گرفتار پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 10 روز کی توسیع کردی۔
احتساب عدالت کے منتظم جج امیر محمد خان نے حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر سماعت کی جہاں نیب کی طرف سے اسپیشل پراسکیوٹر حافظ اسد اللہ اعوان اور حمزہ شہباز کی طرف سے امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔
نیب نے حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ میں 15 روزہ توسیع کی استدعا کی اور حمزہ شہباز کی مالی دستاویزات پیش کر دیں۔
نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کی فنانشل اسٹیٹمنٹس کو اس کے بینک اکاؤنٹس اور آمدن کا 30 جون 2006 سے 2007 تک موازنہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں:نیب نے حمزہ شہباز کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا
پراسکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز کے 2005 کے دوران 20 ملین سے 45 ملین تک اثاثوں میں اضافے سے متعلق تفتیش کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پر 16 ملین کی ماڈل ٹاؤن کی جائیداد بیرون ملک سے بھجوائی گئی رقم سے خریدنے کا انکشاف ہوا تھا، ملزم نے 16 ملین کی رقم اپنی والدہ کے اکاؤنٹس میں منتقل کیں حالانکہ یہ رقم نقد کی صورت میں ادا کی گئی۔
پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ تفتیش کے دوران حمزہ کی 2 بے نامی کمپنیاں یونیڈاس اسپیڈ پرائیوٹ لمیٹڈ اور ووڈ نیچر پرائیویٹ لمیٹڈ کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
عدالت میں دلائل دیتے ہوئے نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ حمزہ کے ملازموں نثار احمد، علی احمد خان، ندیم سعید اور محمد طاہر کے نام پر کمپنیاں ہیں اور ان میں سے نثار احمد وزیر اعلی ہاؤس میں کنٹریکٹ پر ملازم بھی رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:رمضان شوگر ملز کیس: حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد
انہوں نے کہا کہ مذکورہ کمپنیوں میں 5 ارب روپے منتقل ہوئے اور ان بے نامی کمپنیوں کا مزید ریکارڈ بھی طلب کیا گیا ہے اور ریکارڈ کے حصول کے لیے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی جائے۔
حمزہ شہباز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ نیب نے جو دلائل دیے ہیں وہ بالکل بے بنیاد ہیں، بیرون ملک ترسیلات کو معاشی اصلاحات اور انکم ٹیکس آرڈیننس کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حمزہ شہباز 2008 سے پہلے کبھی بھی پبلک آفس ہولڈر نہیں رہے اور نیب حمزہ شہباز کے خلاف کرپشن کے حوالے سے کوئی ثبوت بھی پیش نہیں کر سکا جبکہ انکم ریٹرنز اور آمدن کے حوالے سے نیب کو کارروائی کا اختیار نہیں ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران حمزہ شہباز کے وکلا کی جانب سے جب آپس میں باتیں کی گئیں تو اسپیشل پراسکیوٹر نیب حافظ اسد اللہ اعوان نے انہیں خاموش رہنے کی تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت کو وزیر اعلیٰ ہاؤس نہ بنایا جائے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے پراسیکیوٹر نیب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمرہ عدالت کے احترام سے متعلق آپ نہ بولیں جس پر حافظ اسد اللہ اعوان نے کہا کہ میں لا آفیسر ہوں۔
مزید پڑھیں:رمضان شوگر ملز کیس: عدالت کا نیب کو حمزہ شہباز کو پیش کرنے کا حکم
پراسکیوٹر نیب اور حمزہ شہباز کے وکیل کے درمیان مکالمہ ہوا اور امجد پرویز نے حافظ اسد اللہ اعوان کے جواب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھی لا آفیسر ہیں کوئی چپراسی نہیں لگے ہوئے۔
بعد ازاں عدالت نے نیب کی درخواست پر حمزہ شہباز کے جسمانی ریمانڈ میں 10 روز کی توسیع کر دی اور انہیں 3 اگست کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
احتساب عدالت میں آشیانہ ریفرنس کی سماعت
احتساب عدالت کے جج وسیم اختر نے نیب کی جانب سے دائر کیے گئے آشیانہ ریفرنس پر سماعت کی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کے علاوہ فواد حسن فواد اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔
شہباز شریف نے کہا کہ نیب نے جھوٹ کا پلندہ تیار کیا ہوا ہے اور یہ کیس وقت کا ضیاع ہے۔
پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نے نیب کے احتساب پر ایک بار پھر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ ہماری حکومت نے خود فراڈ کو پکڑا اور جنہوں نے کرپشن پکڑی آج وہی ملزم بن چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:نیب کا شہباز شریف کے اثاثے منجمد کرنے کا فیصلہ
ان کا کہنا تھا کہ میں نے آشیانہ اقبال میں کرپشن کی نشاندہی کی لیکن مجھے ہی مورد الزام ٹھہرا دیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ نواز شریف کو جیل میں سہولیات نہیں دی جارہی ہیں، ان کے لیے پرہیزی کھانا بند کردیا گیا ہے اور جیل مینوئل کے مطابق ملاقات بھی نہیں کروائی جاتی ہے۔
اس موقع پر نیب کے پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا کہ شہبازشریف عدالت کا وقت ضائع کررہے ہیں لہٰذا کارروائی کو آگے بڑھانا چاہیے۔
احتساب عدالت کے جج نے آشیانہ ریفرنس کی سماعت 7 اگست تک ملتوی کر دی۔