مارک ایسپر امریکا کے نئے سیکریٹری دفاع مقرر
امریکی سینیٹ نے سابق فوجی مارک ایسپر کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنے کی تصدیق کردی ہے جس کے ساتھ ہی پینٹاگون کو 7ماہ کے طویل وقفے کے بعد نیا سربراہ مل گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کو مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں میں اختلاف پر عہدے سے برطرف کردیا تھا اور اس کے بعد سے 7ماہ تک کسی بھی عہدیدار کو مستقل بنیادوں پر یہ ذمے داری نہیں سونپی گئی۔
یہ پینٹاگون کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اتنے طویل عرصے تک کوئی بھی شخص سیکریٹری دفاع کی ذمے داریاں مستقل بنیادوں پر نبھانے کے لیے موجود نہ تھا جہاں اس دوران امریکا کو ایران سے تناؤ اور افغانستان سے انخلا میں مشکلات جیسے مسائل کا سامنا رہا۔
مارک ایسپر کو واضح اکثریت کے ساتھ سیکریٹری دفاع بنانے کی منظوری دی گئی جہاں ان کے حق میں 90 اور صرف 8 ووٹ ان کے خلاف آئے۔
پینٹاگون کے مطابق وہ منگل کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ تقرری ایک ایسے موقع پر کی گئی ہے جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان تین روزہ دورے پر امریکا میں موجود ہیں اور انہوں نے افغان امن عمل میں امریکا کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
ان کی تعیناتی سے پینٹاگون میں ایک مرتبہ پھر استحکام کی امید ظاہر کی جا رہی ہے جہاں امریکا اس وقت شام اور افغانستان میں جنگوں سے نبرد آزما ہے تو دوسری جانب ایران کی جانب سے بھی اسے شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔
مارک ایسپر جنگی محاذوں کا بہت وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور مقتدر حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
وہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے انتہائی قریبی ساتھی تصور کیے جاتے ہیں جہاں 1986 میں دونوں نے ویسٹ پوائنٹ ملٹری اکیڈمی سے ساتھ گریجویٹ کیا تھا۔
وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا بھی تجربہ رکھتے ہیں اور 1991 میں عراق میں ہونے والی گلف وار میں امریکی فوج کے 'اسکریمنگ ایگلز' کے نام سے مشہور 101ایئربون ڈویژن کا حصہ تھے۔
وہ کئی امریکی سیاستدانوں کے مشیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے چکے ہیں جن میں بارک اوباما کے سابق سیکریٹری دفاع چک ہیگل بھی شامل ہیں۔