افسانہ: 7 منٹ کی زندگی
7 منٹ کچھ اتنا لمبا عرصہ نہیں ہوتا۔
ہاں! محض 7 منٹ کہ جسے بعض لوگ فقط ایک سگریٹ پھونکنے اور بے مقصد گفتگو میں بھی گزار دیتے ہیں۔
اتنا وقت بھلا کیا حیثیت رکھتا ہے خاص کر اس انسان کے لیے جس نے 7 منٹ بعد مرنا ہو۔
آج اگر ٹرین پورے 12 بج کر 30 منٹ پر آجاتی تو اب تک شمیم بی بی کا کام تمام ہوچکا ہوتا لیکن ٹرین لیٹ تھی۔ وہ بھی پورے 7 منٹ اور یہی کل ملا کر شمیم بی بی کی باقی زندگی تھی جس میں اسے وہ باتیں یاد آرہی تھیں جنہیں وہ اسٹیشن آنے سے پہلے ہزاروں مرتبہ سوچ چکی تھی لیکن آخر ایک مرتی ہوئی عورت آخری 7 منٹوں میں اور کیا سوچ سکتی تھی؟
12:31
یہ جولائی کی ایک تپتی ہوئی دوپہر تھی اور اس وقت اسٹیشن پر 15 سے 20 مسافر گاڑی کا انتظار کررہے تھے۔ اسٹیشن ماسٹر شبیر حسین یونیفارم پہنے دائیں جانب بار بار گاڑی کی راہ دیکھتا، کچھ منٹ پہلے وہ گاڑی آنے سے متعلق گھنٹی بجا چکا تھا۔
'شبیر صاحب! 12:31 تو ہوگئے ہیں، یہ گاڑی آ کیوں نہیں رہی؟' ایک مسافر نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا۔
'آج کل گاڑی آہستہ چلتی ہے، زیادہ اسپیڈ سے بوگیاں پٹڑی سے اُتر جاتی ہیں'، شبیرصاحب نے جواب دیا۔
'بس جی پٹڑیاں ختم ہوچکی ہیں، وہی انگریزوں کے زمانے کی چل رہی ہیں'، اس شخص نے ہنستے ہوئے کہا۔
'چلو گورے کوئی تو اچھا کام کرگئے ہیں'، شبیر صاحب نے جواب دیا۔
شمیم بی بی نے سوچا کہ اس کی زندگی کی گاڑی بھی تو پٹڑی سے اتر چکی تھی۔ لُو کا ایک تیز جھونکا سا آیا تو اس نے فوراً اپنی چادر درست کی اور چہرے پر آیا پسینہ پونچھا۔
12:32
'آج کافی گرمی ہے'، ایک مسافر نے دوسرے سے کہا۔
'شاید آج 50 ڈگری درجہ حرارت ہے'، دوسرے نے جواب دیا۔
لیکن آج کتنی گرمی ہے، یہ بات شمیم بی بی کے لیے کس قدر بے معانی تھی۔
ایک ہی وقت میں ایک ہی پلیٹ فارم پر کھڑے مسافروں کے لیے ایک ہی جیسی چیزیں کس قدر مختلف ہوجاتی ہیں جیسے یہ 12:30 کے بعد اضافی ملے 7 منٹ دوسرے مسافروں کے لیے گزارنے مشکل ہورہے تھے جب کہ شمیم بی بی کو یوں محسوس ہورہا تھا کہ اگلے سانس کے بعد جیسے ہی اس نے آنکھ جھپکی تو گاڑی اس کے سامنے ہوگی اور اسے بس چھلانگ لگانی ہے اور یہ دکھ بھری زندگی ختم۔
اس کا جسم کانپ رہا تھا، چہرہ پسینے سے اتنا تَر تھا کہ آنکھ سے بہتے آنسو اور پسینے کے قطروں میں فرق کرنا ناممکن تھا اور یہ پسینہ صرف گرمی کی وجہ سے نہیں تھا۔
'12:33 ہوچکے ہیں، بیٹا جاؤ مسافر خانے جاکر بہن کو کہو پلیٹ فارم پر آجائے، گاڑی بس آنے ہی والی ہے' ایک بزرگ نے ساتھ کھڑے نوجوان سے کہا۔
شمیم بی بی خیالوں کے بھنور میں بُری طرح ہچکولے کھا رہی تھی اور اردگرد کھڑے مسافروں کی کوئی بات اسے سمجھ نہیں آرہی تھی اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے پاؤں میں موجود ایک جوتا ٹوٹا ہوا ہے۔
اس نے سوچا کہ اب تو اس کا 6 سالہ بیٹا جیدا اسکول سے گھر آگیا ہوگا اور ضرور اسے ڈھونڈ رہا ہوگا، اور بڑے کمرے میں چارپائی پر اسے صرف اپنی بہن سوتی ہوئی ملے گی اور وہ اسے جگادے گا'۔
'اماں گڑیا جاگ گئی ہے، بہت زور زور سے رو رہی ہے، جیدا بھاگتا ہوا باورچی خانے میں جائے گا جہاں چولہا ٹھنڈا ہوچکا ہوگا لیکن اس نے آنے سے پہلے روٹی بنا کر کپڑے میں لپیٹ کر چنگیر میں رکھ دی تھی۔ کپڑا لپیٹنے کے بعد اسے خیال آیا تھا کہ روٹی پر دیسی گھی بھی لگا دینا چاہیے کہ یہ جیدے کے لیے اس کی ماں کی طرف سے بنائی گئی آخری روٹی ہوگی۔ جیدا جب روٹی دیکھے گا تو سوچے گا کہ ماں پڑوس میں گئی ہوگی وہ روٹی اٹھا کر پاس پڑے مرتبان سے اچار نکال کر کھالے گا'۔
'کیا وہ مرتبان سے اچار نکال لے گا؟'
'کیا وہ روٹی کھالے گا؟'
یہ وہ ساری باتیں تھیں جو اسے پلیٹ فارم پر یاد آرہی تھیں۔
12:34
'کھانا کھانے کے بعد جیدا کیا کرے گا؟'
'میرا خیال ہے اتنی دیر میں گڑیا پھر سے رونا شروع کردے گی، شاید جیدے نے ابھی آدھی روٹی کھائی ہو، وہ بھاگ کر بڑے کمرے میں جائے گا۔'
'گڑیا نیند سے اٹھنے کے بعد جو روتی ہے تو ماں کے علاوہ کسی سے چپ نہیں ہوتی۔ پھر جیدا کیا کرے گا؟'
'پتا نہیں کیا کرے گا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ جیدا آخر گڑیا کو کیسے چُپ کرائے گا۔'
'شاید وہ اسے ایک تھا راجہ ایک تھی رانی والی نظم سنائے۔'
'لیکن گڑیا چپ نہیں کرے گی'، یہ سوچ کر اُس کا جی بھر آیا۔
'چپ کر جاؤ میری گڑیا'
'چپ کر جاؤ میری پیاری'
اس نے پلیٹ فارم پر کھڑے کھڑے زیرِ لب دہرایا اور آنکھوں سے بہتے پانی میں تیزی آگئی، اس نے فوراً اپنی چادر سے چہرہ پونچھا اور دائیں جانب ٹرین کی تلاش میں نظر دوڑائی۔
'شبیر صاحب اب تو 12:35 ہوگئے ہیں، کیا آپ نے غلطی سے تو اطلاعی گھنٹی نہیں بجادی؟‘، ایک آدمی نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا۔
'20 سال ہوگئے ہیں یہی کام کرتے، اب تو نیند میں بھی گاڑیوں کے آنے جانے کا وقت یاد رہتا ہے بلکہ ساری رات خوابوں میں گھنٹیاں بجتی رہتی ہیں۔ پچھلے اسٹیشن سے چل نکلی ہے تو بس آتی ہی ہوگی، آپ اپنا سامان تیار رکھیں'، شبیر صاحب نے اس شخص کو جواب دیا۔
شمیم بی بی کے پاس تو کوئی سامان بھی نہیں تھا، فقط جان تھی جسے اس نے کھینچ کر پٹڑی تک لے کر جانا تھا اور وہ اس کام کے لیے تیار تھی۔ اگر گاڑی وقت پر آجاتی تو یہ منٹ اور یہ سانسیں کب کی ختم ہوچکی ہوتیں۔
'گڑیا نے اب بھی چُپ نہیں کیا ہوگا، جیدا بھلا کہاں چپ کراسکتا ہے وہ تو خود ابھی بچہ ہے۔ پہلی جماعت میں کوئی اتنا سمجھدار تھوڑی ہوجاتا ہے کہ وہ روتے بچے کو چپ کرالے بلکہ چپ کرانا تو ان کے نشئی باپ کو بھی نہیں آیا'۔
فیقے کا خیال آتے ہی اسے اپنی کمر کے زخموں میں درد محسوس ہونے لگا۔ ابھی تک اسے گرمی اور پسینے کے بارے معلوم بھی نہیں تھا، فیقے کے خیال سے ہی پسینے میں موجود نمک اس کی کمر کے زخموں میں سرایت کرنے لگا۔ پھر اس نے زخمی اور قدرے جھکی ہوئی کمر کو تھوڑا سا سیدھا کیا تو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ بہنے لگے، اس نے چادر سے چہرہ ڈھانپ لیا۔
اسے شادی سے پہلے والے فیقے کا خیال آیا جو کہتا تھا، میرے ساتھ بھاگ کے شادی کرلو تمہیں شہزادی بنا کر رکھوں گا اور وہ بھی کتنی نادان تھی کہ اس کی ہر بات کو سچ سمجھ کر ایک رات گھر سے بھاگ آئی تھی۔ ماسٹر کریم داد کی 10 جماعتیں پاس کرنے والی اکلوتی بیٹی کیسا قدم اٹھا بیٹھی تھی۔
اسے پورے 2 دن بعد ماسٹر کریم داد کا خیال آیا تھا، ایسے جیسے کوئی کسی سفر پر نکلے اور جب منزل پر پہنچے تو یوں محسوس ہو کہ کچھ بہت قیمتی چیز راہ میں کہیں کھو گیا ہے، اس سے بھی اس کے ابا کی محبت کھوگئی تھی۔
'ابا کس حال میں ہوگا؟' 2 دن بعد یہ بات اسے رہ رہ کرستانے لگی۔
ادھر ابا کے پاس ماضی کے سوا کچھ باقی نہیں بچا تھا۔ بیوی مدت پہلے فوت ہوگئی تھی، اکلوتی اولاد کو ماں اور باپ دونوں بن کر پال رہا تھا کہ یکدم اس کی گاڑی بھی پٹڑی سے اُتر گئی۔
شادی کے 3 مہینے بعد وہ اپنے ابا کو دیکھنے گئی تھی، دراصل پڑوسیوں کا فون آیا تھا۔
'اپنے ابا کو دیکھ جاؤ، حالت کوئی نہیں ہے اب'
وہ وہاں پہنچی تو سامنے ایک ہڈیوں کا پنجرہ تھا جو تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہوا کے اندر جانے سے اوپر اُٹھتا تھا۔
3 مہینے کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوتا لیکن آدمی کو دُکھ کی دیمک لگ جائے تو 3 مہینے بہت ہوتے ہیں۔
بہت سے دکھوں میں شمیم بی بی کو یہ بھی ملال تھا کہ آخری وقت ابا اسے پہچان نہیں پایا تھا حالانکہ اس نے رو رو کر بتایا تھا کہ وہ شمیم ہے، ان کی اکلوتی بیٹی۔
معلوم نہیں وہ بوڑھی آنکھیں آخری سمے کیا دیکھ رہی تھیں اور کسے خبر کہ ان میں اس وقت کچھ نظر بھی آرہا تھا یا نہیں۔
لیکن شمیم بی بی کو آج تک اس اسٹیشن پر کھڑا ہونے کے 12 بج کر 36 منٹ تک یہ یقین تھا کہ ان آنکھوں میں شمیم بی بی کا عکس مٹ چکا تھا۔ اور فیقے کی محبت تو اس کے گھر قدم رکھتے ہی ختم ہوگئی تھی۔ اس نے شمیم سے سارے زیور لے کر بیچ دیے تھے۔ شادی کے 8 سالوں میں چند ہی دن ایسے ہوں گے جس دن فیقے نے اس پر ہاتھ نہ اٹھایا ہو۔
12:37
دُور سے گاڑی کے انجن کی آواز آتی ہے۔
'آگئی بھئی، سامان اُٹھاؤ۔۔۔۔'، مسافروں نے شور مچادیا۔
اس نے لمبا سانس لیا، دُور سے آتی ٹرین کو دیکھا، چادر پر گرفت مضبوط کرلی۔
جیدا کہہ رہا ہوگا
'ایک تھا راجہ۔۔۔ ایک تھی رانی۔۔۔'
'گڑیا رو رہی ہوگی'۔
'جیدا گا رہا ہوگا'۔
'گڑیا رو رہی ہوگی'۔
ٹرین آرہی ہے۔
جیدا، گڑیا، ٹرین۔
معلوم نہیں 7 منٹ کے آخری چند سیکنڈز میں شمیم بی بی کو کیا ہوا کہ وہ ٹوٹی ہوئی جوتی کے ساتھ اسٹیشن سے باہر کے راستے پر دوڑ پڑی۔ اس راستے پر جہاں جیدا ننگے پاؤں گڑیا کا ہاتھ تھامے رو رہا تھا۔
تبصرے (3) بند ہیں